”قومی خزانہ لوٹنے والے اس بار نہ جانے پائیں“

Nov 13, 2012

خالد ایچ لودھی

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح بطور گورنر جنرل پاکستان اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ قائد کے اے ڈی سی نے آ کر پوچھا ”سر اجلاس میں چائے یا کافی پیش کی جائے؟“ قائداعظم نے بڑے سخت لہجے میں فرمایا ”یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے“ اے ڈی سی گھبرا گیا قائد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پئے قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں“ اس آرڈر کے بعد جب تک قائداعظم اپنی کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے رہے ان اجلاسوں میں صرف سادہ پانی ہی پیش کیا جاتا رہا۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی اس مثال کو مملکت پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کو مشعل راہ بنانا چاہئے تھا بطور گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی سادگی کے حوالے سے بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کو کم از کم ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں نمایاں طور پر آویزاں ہونا چاہئے تھا اور ان کی روشنی میں ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے بجٹ بنائے جانے چاہئیں تھے لیکن آج کے دور میں ایوان صدر، ایوان وزیراعظم اور اسی طرح صوبوں کے گورنر ہاﺅس، وزرائے اعلیٰ ہاﺅس میں ملکی خزانے سے خطیر رقم بے دریغ خرچ ہو رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کا موجودہ بجٹ 20 اور 21 کروڑ کے لگ بھگ اور اسی طرح وفاقی وزرائے مملکت، مشیروں کے علاوہ ممبران اسمبلی اور ممبران سینٹ کے سٹاف اور پھر پارلیمانی سیکرٹریوں کے ذاتی اخراجات جو کہ حکومت پاکستان کے خزانے سے ادا ہوتے ہیں ان کا بجٹ بھی آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ دوسری جانب بیشتر حکومتی شخصیات کے ذاتی اکاﺅنٹ غیر ملکی بنکوں میں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ہو کہ صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور گورنر صاحبان نے کبھی ملک کے کسی سرکاری ہسپتال سے علاج کروایا ہو یا پھر عام لوگوں کے ساتھ عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہو۔ برطانیہ جس کا رقبہ 2 لاکھ 44 ہزار 820 مربع کلومیٹر اور آبادی 6 کروڑ 5 لاکھ اور 90 ہزار 609 افراد پر مشتمل ہے حکومت برطانیہ ہر سال اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود پر 545 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ 22 اور 23 کے قریب وزراءپر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے وزرائ، مشیروں اور دیگر پارلیمانی سیکرٹریوں کی تعداد ملا کر یقیناً جمبو جیٹ طیارے کے مسافروں کے برابر ہو گی۔ سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کو میں نے خود پیدل 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ سے پارلیمنٹ ہاﺅس جاتے ہوئے دیکھا اور اسی طرح سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن جب وہ وزیر خزانہ (چانسلر) تھے ان کو کئی بار لندن کی انڈر گراﺅنڈ ٹرین میں اپنے ہمراہ سفر کرتے ہوئے پایا لیکن اب 9/11 کے واقعہ کے بعد وزیراعظم اور اہم وزراءکی سیکورٹی ذرا سخت کر دی گئی ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں صدر اور وزیراعظم کے علاوہ گورنر اور وزیر اعلیٰ اور پھر وزراءاور مشیروں کے سیکورٹی سکواڈ دیکھ کر پاکستان کے حکمرانوں کی شان و شوکت پر رونا آتا ہے۔ تاریخ نے موجودہ حکمرانوں کو بڑا سنہرا موقع فراہم کیا تھا تمام اتحادیوں نے اور خود اپوزیشن نے مل کر حکومت کی لیکن کسی نے بھی عوامی انقلابی اصلاحات کا پروگرام شروع ہی نہیں کیا۔
 ان چار سالوں میں عوام کی تقدیر بدلنے میں پہل ہو سکتی تھی اور پھر ہمیشہ کے لئے ”میرے عزیز ہم وطنو!“ سے نجات بھی حاصل ہو سکتی تھی لیکن ایسا ہوا ہی نہیں دراصل ہوا یہ کہ اس سارے عرصے میں جو جس کے ہاتھ لگا وہ لے گیا۔ لوٹ مار اس سارے عرصے میں جدید طریقوں سے ہوئی ہے کوئی ثبوت ہی نہیں چھوڑا سب نے مل کر بہتی گنگا میں اپنی ہاتھ دھوئے ہیں۔ پاکستان سے لے کر دوبئی اور پھر دوبئی سے لے کر سوئٹزر لینڈ اور پھر لندن تک سب صفایا ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ان چار سالوں میں جو کرپشن ہوئی ہے۔ یہ اتحادیوں نے مل کر اور اپنا اپنا حصہ بانٹ کر کی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے اس کے باوجود سرزمین پاکستان وہ خطہ ہے کہ جہاں قدرت کی ہر نعمت موجود ہے۔ پاکستان کی پہچان اسلام کا مضبوط قلعہ ہے۔ پاکستانی قوم میں ہر وہ خوبی موجود ہے جو جدید قوموں میں پائی جاتی ہے۔ یہاں بے پناہ صلاحیتیں نوجوانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا ٹیلنٹ پوری دنیا میں مانا جاتا ہے۔ جو قوم ایٹم بم بنا سکتی ہے کیا اس میں عالمی معیار کی اعلیٰ خوبیاں اور پیشہ وارانہ صلاحیتیں موجود نہ ہوں گی؟ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے عسکری ادارے مضبوط قلعوں کی مانند ہیں پاکستان کی آئی ایس آئی غیر ملکی خفیہ اداروں کے ہم پلہ قرار پاتی ہے پاکستان کی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت میں افواج پاکستان کے تینوں شعبوں آرمی، ائرفورس اور نیوی کا کردار ہمیشہ ہی سے قابل فخر رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ کون سی ایسی کمی ہے جو کہ پاکستان کے اداروں میں پائی جاتی ہے دراصل سیاستدانوں نے ملکی اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا ہے اور ہر دور میں بیوروکریسی میں سیاسی بنیادوں پر اکھاڑ پچھاڑ نے ملکی اداروں کو کھوکھلا کر چھوڑا ہے۔ یہ وہ کمی ہے جو کہ اب تک چلی آ رہی ہے۔ سیاسی حکومتوں نے دانستہ طور پر یہ کمی برقرار رکھی ہے تاکہ حکومتی اداروں پر حکمرانوں کا بے جا تسلط قائم رہے اور ان کی لوٹ مار جاری رہے۔ قوم کو اب اپنا احتساب خود کرنا چاہئے اور اپنی صفوں میں غنڈے، ڈاکو اور قومی لٹیروں کی بجائے حقیقی عوام نمائندوں کو جگہ دینا ہو گی اور حکمرانوں کی بجائے لیڈروں کو پیدا کرنا ہو گا۔ اپوزیشن میں کم از کم کوئی نوابزادہ نصراللہ خان ہی آ جائے۔ قوم اس وقت عوام کا ہمدرد، مخلص اور دیانتدار لیڈر چاہتی ہے جو کہ قوم کا لیڈر ہو جو ہجوم کو قوم اور قوم کو دنیا کی عظیم تر قوم بنا دے۔ یقیناً ایسا ممکن ہے شرط صرف یہ ہے کہ اس بار قومی خزانہ لوٹنے والوں کو جانے نہ دیا جائے! ان کو قومی مجرم قرار دے کر سزا دی جائے اور پھر عام انتخابات ہوں صرف اور صرف ایک ہی سوال موجودہ اتحادی حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ ان چار سالوں میں آپ کی حکمرانی نے ملک و قوم کو کیا دیا؟ قدرت کا اپنا نظام ہے کہ جب کسی شخص کو اقتدار میں لایا جاتا ہے تو اسے اقتدار کے ساتھ یہ مواقع بھی حاصل ہو جاتے ہیں کہ وہ لیڈر بن جائے یا حکمران بن جائے لیکن یہاں ہوا یہ ہے کہ لیڈر تو ضرور پیدا ہوئے اور وہ عوام کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان پر راج بھی کرتے رہے لیکن وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو نہ بنا سکے اور طاقت کا سرچشمہ ہمیشہ ہی چند خاندان رہے اور حکمران قومی خزانہ لوٹتے رہے۔ اب قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ لیڈر اور حکمران کی پہچان کرے چند خاندانوں میں سے لیڈر اور حکمرانوں کا انتخاب نہ کرے اور پھر تصویروں کے سائے میں قائد بھی نہ تلاش کرے!

مزیدخبریں