صدر اوباما مزید چا سال کیلئے امریکہ اور باقی دنیا پر حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کیلئے ایک بنیادی مسئلہ ہے اس لئے ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ ہمیں مستقبل میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا یہ چیز اہم نہیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھتے ہیں بلکہ اس سے زیا دہ یہ ضروری ہے کہ دنیا ہمیں کس طرح دیکھتی ہے۔ اسی طرح ہم اپنی خود مختاری کو محفوظ اور اپنے عوام کیلئے زیادہ کچھ حاصل کرنے سے متعلق ذہا نت آمیز اقدامات کر سکتے ہیں۔ ہماری حالیہ خارجہ پا لیسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ ہم دنیا کا جائزہ لینے کے حوالے سے بھی اندیشوں کا شکار ہیں۔ بے تکلفی سے کہا جائے تو ہم یکساں طور پر اختتام پر پہنچ گئے ہیں اور ہم اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیںالبتہ اگر حکومت پارلیمنٹ میں اپوزیشن سے خارجہ پالیسی کے حوالے سے تجاویز لے تو صورتحال میں بہتر آ سکتی ہے۔ یہ ایوان صدر اور دفتر خارجہ کے لئے جاگنے کا وقت ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایران اور روس کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔ ہم ملالہ ایشو میں پھنسے ہیں جس پر دنیا بھر سے لوگوں نے دستخطی پٹیشنز بھیجی ہیں اور ہم افغان صدر کرزئی کے توہین آمیز بیان کو بھی برداشت کر رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی ایک سانپ ہے اور جب آپ سانپ کو تربیت دیتے ہو تو اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہمسائے کے گھر میں داخل نہیں ہو گا۔ ملالہ پر حملے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ عالمی طاقتیں کیا سوچ رہی ہیں۔ صدر اوباما اپنی خارجہ پالیسی کس طرح بناتے ہیں اور یہ ہم پر کس طرح اثر انداز ہو گی۔ وہ پاکستان کی شمولیت سے افغانستان سے انخلاءکا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اوباما کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اسرائیل کو کس طرح ایران پر حملے سے باز رکھ سکتے ہیں اور دو ریاستی حل کیونکہ تعطل کا شکار ہے جس سے تمام سٹیک ہولڈروں کی ساکھ داﺅ پر لگی ہوئی ہے، انہیں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ عرب ملکوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے حالات میں وہ خود کو کس حد تک ملوث کر سکتے ہیں خصوصاً ایسی صورت حال ہو کہ ان تبدیلیوں کے اثرات امریکہ پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ ایسے حالات میں عرب ممالک میں آئے ڈکٹیٹر ا تحادی ختم ہو جائیں گے اور وہاں عوام پر مذہبی قوتوں کا اثر و نفوذ قائم ہو جائے گا۔ انہیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ چین کے بڑھتے ہوئے غلبے کے پیش نظر وہ جاپان، کوریا اور بھارت جیسے ممالک کے ساتھ اتحاد کو کس طرح مضبوط بنا سکے گا۔
یورپ کیلئے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کون سے راستے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ لزبن سمجھوتے کے بعد یورپی یونین کے نسبتاً کمزور ادارے یونین کے تمام رکن ممالک کیلئے یکسانیت پیدا نہ کرتے اور تین بڑے ممالک برطانیہ جرمنی اور فرانس کو برتری حاصل ہو گئی۔ اس طرح خارجہ پالیسی کے حوالے سے تین بڑی ترجیحات ہونگی۔ جن کیلئے پاکستان کو تیار رہنا ہو گا۔ جرمنی عالمی سطح پر جغرافیائی اور اقتصادی وژن کا حامل ملک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسکی وسیع تجارت راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ فرانس جو اپنی خودمختاری سے گہری وابستگی رکھتا ہے یونین کی قیادت کی خواہش رکھتا ہے۔ برطانیہ کے پاس بہترین سفارت کار ہیں اور اسکے پاس دولت مشترکہ کا پلیٹ فارم بھی ہے۔ جبکہ اجتماعی طور پر وہ لیبیا شام اسرائیل ایران افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی موقف کے تحت چلنا نہیں چاہتے بلکہ ان خطوں کے ساتھ تاریخی تعلقات کے باعث اپنا رول اس سے بڑھ کر تصور کرتے ہیں۔ البتہ وہ یورپی پارلیمنٹ کی یورپی سکیورٹی اور دفاعی پالیسی پر کاربند ہیں۔ پاکستان کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف ان کی فوجی مداخلتیں مربوط ہونگی چونکہ وہ دہشت گردی کو یورپ کی پوری قوت کے خلاف خطرہ تصور کرتے ہیں جہاں تک چین کی ممکنہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے جیسا کہ حال ہی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہوجن تا¶ نے کہا چین ترقی یافتہ معیشتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے گا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستی اور پارٹنرشپ کو فروغ دے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کی ترقی کےلئے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔ پاکستان کو اس بارے میں کسی فریب کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ چینی اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان اس پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔ چین اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردی کی بہرحال ستائش نہیں کرے گا۔ ان بین الاقوامی ترجیحات کی موجودگی میں پاکستان خود کو کہاں کھڑا محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کی کوئی مربوط پالیسی نہیں۔ دنیا میں جہاں ہمارا منفی امیج بنا ہوا ہے ہمیں سوچ سمجھ کر معاملات کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ ایوان صدر، دفتر خارجہ، فوج اور پارلیمنٹ کے لئے ضروری ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ کام کریں ۔ متحد ہو کر دنیا کا سامنا کرنے کیلئے درج ذیل موقف پر اتفاق رائے قائم کرنا ہو گا۔ ہم ان دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے جو ہم پر حملہ کریں جو پاکستان اور ہمارے اداروں کو تسلیم نہ کرتے ہوں۔ انہیں نشانہ بنانے کے طریقہ کار کے بارے میں تمام سیاسی سٹیک ہولڈروں کے ساتھ کھل کر بات چیت کی جائے تاکہ ہر کارروائی ایک قوم کے طور پر کی جائے۔
-1 کوئی بلیم گیم برداشت نہیں کی جائے گی۔ نشانہ بنائے جانے والے دشمن کی نوعیت نقصان پہنچانے کے والے سے ہی صلاحیت کی وضاحت واضح طور پر کی جانی چاہیے، حالات کے سا تھ اس کی دشمنی کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے اسے واضح کرنا چاہیے۔
-2 ہم ان کے ساتھ بات کریں گے جو مذاکراتی عمل میں شرکت پر آمادہ ہوں تاکہ انہیں انتخابی عمل میں شریک کیا جا سکے۔
-3 پاکستان ڈرون حملہ کے بارے میں دہرا معیار برداشت نہیں کرے گا اگر انہیں مشکل اہداف کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اس کا کنٹرول ہماری اپنی فوج کے اوپر ہونا چاہیے۔
-4 ہماری اپنی ہی آبادی کے نو گو ایریاز کا تصور ختم ہونا چاہیے حکومت کو ملک بھر پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے اندر کسی نسلی گروپ یا فرقے کوایذا نہ پہنچائی جا سکے۔ اسی طرح اپنی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوجی کی موجودگی برداشت نہ کی جائے کیونکہ یہ ہماری اپنی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہے۔
-5 تحریک طالبان پاکستان اور امتیازات کے خلاف نبردآزما قوم پرستوں کے ساتھ حکومتی رویہ مختلف ہونا چاہیے۔ تمام عناصر کے خلاف ایک ہی نسخہ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
-6 پاکستان کو اس معاملے میں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ مزید اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کے بارے میں بھی مساوی طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔ علاقائی تنازعات کے حل اور معیشت دونوں پہلوﺅں کو یکساں کوپیش نظرہونا چاہیے۔
-7 2014ءمیں غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے اثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بات اہم ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
-8 ایران کے بارے میں مغرب کے رویہ ٹھنڈا کرنے میں پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایران ہمارا اہم پڑوسی ہے جسے دنیا کا سامنا کرنے کیلئے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں متعلقہ ضروریات کا احساس کرنا ہو گا۔
-9 چین کے بارے میں سیکورٹی کا معاملہ یقینی بنانے کے ساتھ پاکستان کے اندر تیز تر سرمایہ کاری کو یقینی بنانا چاہیے۔
-10 پاکستان کے تمام بڑے تجارتی پارٹنرز کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے کیلئے قابل قبول فری ٹریڈ معاہدوں کے بغیر دو طرفہ سرمایہ کاری نہ کرنے کو بنیادی اصول بنایا جائے۔ تجزیے کی آخری بات یہ ہے کہ یہ سب مندرجہ بالا معاملات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ ہو، کرپشن، لڑکھڑاتی معیشت کمزر اداروں اور بھاری قرضوں نے ہمیں دنیا بھر میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ذمہ دارانہ خارجہ پالیسی ویژن مالیتی ڈسپلن بچت واضح خارجہ پالیسی سے ہم باقی دنیا کے ساتھ پیدا ہونے والے ساکھ کے فقدان کو دور کر سکتے ہیں تاہم اس مقصد کیلئے دنیا کی ترجیحات اور ان کے حوالے سے اپنے کردار کو صحیح طور پر سمیٹنا ہو گا اور دنیا کا سامنا کرنے کیلئے یکسو ہونا پڑے گا۔