بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا 1930 کا سالانہ اجلاس جو دسمبر کے آخری ایام میںالہ آباد میںعلامہ اقبال کی صدارت میں منعقد ہوا تھا ،اسے اولاً16 اگست 1930 کو لکھنو¿ میںمنعقد کرنے کی تجویز زیر غور آئی تھی اور اسکے انعقاد کی تیاریاںجولائی 1930 کے وسط میںشروع کردی گئی تھیں۔چنانچہ 14جولائی 1930 کو دہلی میںمسلم لیگ کونسل کے مرکزی دفتر واقع بلّی ماراں سٹریٹ میںہوا تو اس میں لکھنو¿ میں مجوزہ جلسے کے انتظامات پر غور کیاگیا اور اس اجلاس کے صدر کے بارے میں بھی سوچ بچار کی گئی۔اس وقت چار نام صدارت کیلئے تجویز ہوئے جو علی الترتیب حسب ذیل ہیں۔
1۔ ڈاکٹر سر محمداقبال 2۔سر سلطان احمد 3۔ فضل الحق صاحب 4۔صاحبزادہ عبدالقیوم
لکھنو¿ اجلاس کی صدارت کیلئے ڈاکٹر اقبال کا نام طے پا گیا تو محمدعلی جناح سے انکی منظوری حاصل کرنے کیلئے انہیںاسی روز تار بھی دیدیا۔علامہ اقبال نے نہ صرف صدارت قبول کرلی بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اعزاز میںجنرل سیکرٹری مولوی محمد یعقوب کو یکم اگست 1930کو ایک خط کے ذریعے متنبہ کیا کہ انکی اطلاع کے مطابق کانگریس کے بندے لیگ کے آئندہ اجلاس پر نیشنلسٹ مسلمانوںکے ذریعے قبضہ کرنے کی سازش کر رہے ہیںاور خفیہ منصوبے بنائے جارہے ہیںکہ اس اجلاس کو ناکام بنا دیاجائے ۔ علامہ اقبال نے لکھا ” ان لوگوں کی تخریبی کارروائیوں کو روکنے کیلئے ممکنہ احتیاطی تدابیر عمل میںلائی جائیں“۔ واضح رہے کہ اس دور متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم آویزش بے حد نمایاں تھی۔ آل انڈیا کانگریس کی ہندو قیادت کو شاں تھی کہ ہندوستانی مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد نہ ہوں اور وہ اپنے مقاصد جو الگ قومیت کے ادراک کے ساتھ ہی ابھر آئے تھے۔ حاصل نہ کیے جاسکیں۔ علامہ اقبال کا مولوی محمد یعقوب کے نام متذکرہ بالا خط انہیں اندیشہ ہائے دور ودراز کا مظہر ہے جواب سطح پر بھی رونما ہورہے تھے۔ لکھنو¿ اجلاس کی کامیابی کیلئے اقبال اتنے سرگرم تھے کہ انہوں نے لکھنو¿ میں اپنی آمد پررسمی استقبال سے بھی منع کردیا اور مولوی محمد یعقوب کو لکھا:
”مہربانی کرکے ممبران استقبالیہ کمیٹی کی خدمت میںمیری طرف سے عرض کیجئے کہ کسی قسم کے استقبال کی تیاری نہ کی جائے “۔
انہوں نے لکھنﺅ میں اپنے دوست محمد وسیم بیرسٹر کے ہاں قیام کا فیصلہ کیا اور انہیں بھی لکھا کہ ”میرے لکھنو¿ پہنچنے کے وقت سے کسی کو بھی آگاہ نہ کیاجائے “
اس دوران انہوں نے خطبہ¿ صدارت تیار کرنا شروع کردیا اور اسکی اطلاع مولوی محمد یعقوب کو ان الفاظ میں کردی۔” خطبہ¿ صدارت ایک ہزار کی تعداد میں چھپے گا۔ اردو ترجمہ کرنا اور اسے رسالے کی صورت میں شائع کرنا میرے بس کا کام نہیں غالباً مدیر ”انقلاب“ (مولانا عبدالمجید سالک) اسے اپنے اخبار کیلئے ترجمہ کرینگے‘ جو اخبار میں بھی شائع ہوگا“۔مسلم لیگ کا یہ سالانہ اجلاس لکھنو¿ میں منشی احتشام علی صاحب کی قیام گاہ 131 خیالی گنج لکھنو¿ میں 16 اگست 1930 کو انعقادپذیر ہونا طے پایا اور اس کے انتظامات کیلئے مسلم لیگ کا دفتر 2 اگست 1930 کو بیس دن کیلئے دہلی سے لکھنو¿ منتقل کردیا گیا لیکن بعض اہم امور کی بنا پر اس اجلاس کو ملتوی کرنا ضرور ی ہوگیا گمان غالب یہ ہے کہ لکھنو¿ میں ہندوﺅں کی در پردہ سازشیں زور پکڑ گئی تھیں۔
مزید برآں ستمبر 1930 میں مرکزی اسمبلی اور صوبائی قانون ساز کونسلوںکے انتخابات بھی منعقد ہورہے تھے جن میں مسلمانوں کی پر زور شرکت ضروری تھی اور یہ مسلم لیگ کے اجلاس پر اثر انداز ہوسکتی تھی چنانچہ خود علامہ اقبال نے لکھنو¿ اجلاس کو اکتوبر1930 تک ملتوی کرنے کی تائیدکی کہ اس وقت متذکرہ انتخابات ختم ہوچکے ہونگے۔ انہوں نے یہ اجلاس دہلی میں منعقد کرنے کی تجویز بھی دی اور مولوی یعقوب صاحب کو لکھا کہ اگر دہلی کو موزوں نہ سمجھا جائے تو یہ اجلاس ہم لاہور میںمنعقد کرنے پربھی آمادہ ہیں بشرطیکہ فیروز خان نون اور دیگر اصحاب اس میں دلچسپی لیں“۔مختلف صوبوں کے نمائندوں نے بھی مرکزی اور صوبائی انتخابات کی وجہ سے ہی اجلاس کے التوا پر اصرار کیا اور11اگست 1930 کو فیروز خان نون نے سیکرٹری مسلم لیگ کو ایک تار بھیجا کہ مسٹر جناح بھی اجلاس کے التواءکیلئے آمادہ ہیں۔ ”ازراہِ مہربانی و اجلاس کے التوا کا اہتمام کیجئے “۔ لکھنو¿ کا اجلاس ملتوی کرنے کے بعداب نئی تاریخ اور مقام کے تعین پر سوچ بچار ہونے لگی۔ علامہ اقبال نے 18اکتوبر 1930 کو موزوں تاریخ قرار دیتے ہوئے یہ اجلاس لکھنو¿ میں کرنے کی تجویز دی اور لکھا:
” اجلاس کا لکھنو¿ میں ہونا ہی بہتر ہے کیونکہ کسی اور مقام کے انتخاب میں دِقت ہوگی اور وہاں کے لوگ تقاضا کرینگے کہ لیگ کے اجلاس کو کامیاب بنانے کیلئے چندہ جمع کرنے کیلئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔“لیکن لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہونے کی وجہ سے لکھنو¿ اجلاس اکتوبر کی مجوزہ تاریخ پر بھی منعقد کرنا مناسب قرار نہ دیا گیا کہ عوام کی توجہ گول میز کانفرنس کے مباحث جن میں ہندو مسلم تصفیہ سرِ فہرست تھا زیادہ توجہ حاصل کرنگے۔ چنانچہ1930 کا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پھر ملتوی ہوگیا۔ آخر 10 دسمبر 1930 کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا جو اجلاس دہلی میں منعقد ہوا اس میں حاجی محمد حسین کی یہ درخواست ارکان کونسل نے متفقہ طور پر منظور کرلی کہ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں الہ آباد میں منعقد ہو۔دسمبر کے آخری ہفتے میں 29 اور30 تاریخ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ کرسمس کی چھٹیوں کے دوران اس اجلاس میں زیادہ تعداد میں شریک ہوسکیں گے۔اس اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنا وہی صدارتی خطبہ پیش کیا جو لکھنﺅ اجلاس کیلئے انگریزی میں لکھا گیا تھا اور اب تحریک پاکستان کی ایک بنیادی دستاویز شمار ہوتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ لاہور کے اخبار ”انقلاب“ نے جس کے مدیران علامہ اقبال کے دو نیاز مند مولانا غلام رسول مہراور عبدالمجید سالک تھے اسی روز صدارتی خطبے کا ترجمہ شائع کردیا۔