منگل ‘ 27 ذی الحج 1433ھ 13 نومبر2012 ئ

Nov 13, 2012


اے اللہ کشمیری بھائیوں کو آزادی عطا فرما، رائیونڈ اجتماع میں بھارت سے آئے بزرگ مولانا زبیر الحسن کی دعا۔
جب گھر والے ہی کسی کی آزادی کی دعائیں کریں تو سمجھ لینا چاہئے اسے جلد یا بدیر آزادی ضرور ملے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ میں سفید بالوں کی لاج رکھتا ہوں، ان کی دعا¶ں کو رد نہیں کرتا، مولانا زبیر الحسن کی دعا پر لاکھوں افراد نے آمین کہی جو انشاءاللہ بارگاہ ایزدی میں رد نہیں ہو گی۔ لاکھوں علماءقال اللہ و قال الرسول کی صدا لگانے والے علماءاور عام لوگوں نے اللہ کے سامنے آنسو بہائے، اللہ تعالیٰ تو 70 ما¶ں سے زیادہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے۔ یا اللہ اگر اتنے لوگ اپنی اپنی ممتا کے سامنے آنسو بہاتے تو یقیناً وہ کہتی جا بیٹا جو تو کہتا ہے ایسا ہی ہو گا۔ یا اللہ آج نوائے وقت کے کروڑوں قارئین بھی اس دعا پر آمین کہتے ہوئے تجھ سے یہی التجا کرتے ہیں کہ کشمیر جنت نظیر کو آزادی عطا فرما۔ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے قائدین اور کارکنان کی خدمت میں عرض ہے کہ امید بہار رکھیں، خزاں کا موسم گزر چکاہے اور انشاءاللہ آزادی جلد اور ضرور نصیب ہو گی۔
٭٭٭٭
گوجرانوالہ: زیادتی کا الزام، چودھریوں نے محنت کش کو گدھے پر بٹھا کر گاﺅں میں گھمایا، بال، بھنویں اور مونچھیں مونڈھ ڈالیں، جمشید پر مبینہ زیادتی کا الزام تھا
اگر واقعی جمشید نے جرم کیا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے، لیکن ہر کسی کو اپنی عدالت لگانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ پولیس ایسے موقع پر نہ جانے کیوں غائب ہو جاتی ہے پھر تب حاضر ہوتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ علاقے کا چودھری خود ہی پولیس خود ہی عدالت اور اپنی ہی اس کی جیل ہے۔ وہ کسی کو گدھے پر بٹھا کر گھمائے، یا کسی پر کتے چھوڑ کر بال بھنویں اور مونچھیں مونڈ ڈالے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ ایسا تو زمانہ جہالت میں بھی نہیں ہوتا ہو گا۔ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کے بارے سن رکھا تھا کہ جناب بڑے عادل ہیں، لگتا ہے ان کا طنطنہ صرف ”پلسیوں“ کے پیٹ کم کرنے تک محدود ہے۔ ایک دیہاتی مثل ہے کہ آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل، کورٹ کے وکیل اور پلسیوں کی دلیل سے خدا ہی بچائے۔ آخرالذکر دونوں بلا کا جھوٹ بولتے ہیں۔ دونوں دُور کے جلوے کے قائل نہیں ہوتے جب تک آنکھ سے دیکھ کر ناک سے سونگھ نہ لیں۔
اسی لئے گوجرانوالہ پولیس نے 8 روز تک چودھریوں کی طرف دیکھا تک نہیں پھر 8 دنوں کے بعد ملزم کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرکے جیل بھجوا دیا۔ چودھریوں نے کوئی پیٹ بھر دیا ہو گا۔ ایک پولیس کی زیادتی کے شکار نوجوان نے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں اگر کبھی عذاب الٰہی آیا تو وہ صرف پولیس کے ظلم و ستم کی بنا پر ہی آئے گا کیونکہ یہ بے گناہوں کو گنہگار اور گنہگاروں کو بے گناہ بنانے کا نہ صرف ہنر جانتی ہے بلکہ سر پر قرآن رکھ کر اپنی رپورٹ کو سچ ثابت کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کے مک مکا کے بارے عرض ہے
مُک مُکا کے جو ریکارڈ تھے وہ توڑے ہم نے
تھے جو کنجوس بہت وہ بھی نچوڑے ہم نے
مُک مُکا میں نہیں ہم جیسا کوئی دنیا میں
مرغ تو مرغ ہیں انڈے بھی نہ چھوڑے ہم نے
٭٭٭٭
پیپلز پارٹی، (ق) لیگ کا اتحاد جلد ٹوٹنے والا ہے: عطا مانیکا، اعجاز شیخ
غیر فطری اتحاد اس بول سے مختلف تو نہیں ہوتا
”تیری میری اِنج ٹٹ گئی جیویں ٹٹیا امبر توں تارا“
یہ اتحاد تو صرف کھانے پینے کا ہے دونوں پارٹیوں نے شیشے کی فصیلوں پر اپنی اپنی منجنیقیں نصب کرکے (ن) لیگ کے قلعوں پر پتھراﺅ کرنے کا اتحاد کیا ہوا ہے۔ کل تک قاتل لیگ کہنے والوں نے کیسے رنگ بدلے بس شیر و شکر ہو چکے ہیں کیونکہ جناب کھانے پینے کا جو مسئلہ ہے۔ ن لیگ والے بھی تو کوئی حاجی ثناءاللہ نہیں ہے وہ بھی تو موقع غنیمت جان کر لوگوں کو دوسری پارٹیوں سے توڑ رہے ہیں۔ الیکشن کی آمد آمد ہے ایسے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں کوئی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی نے چھوٹی چھوٹی بلیک میل پارٹیوں سے جان چھڑانے کےلئے ق لیگ کو شریک اقتدار کیا۔ جب وہ دانت دیتی ہے تو چنے نہیں ہوتے اور جب چنے دینے پر آتی ہے تو دانت ندارد۔
پیپلز پارٹی کو جب چنے ملے تب چودھری برادران کے مطالبات آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور جب ”بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی“ پر عمل کرتے ہوئے چودھریوں نے ایوان صدر کا طواف کیا، تب پی پی پی عدالتی معاملات میں الجھی ہوئی تھی۔ اب منظور وٹو کے بھی ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ چلے کارتوس بار بار نہیں چلتے۔
٭٭٭٭
حکومت کی مدت 16 مارچ تک ہے الیکشن ملتوی کرانے کا پروگرام نہیں: نوید قمر
16 مارچ ہی کا اعلان کر دیں کچھ کریں تو سہی، الیکشن کمشن نے بھی تیاری کرنی ہے جبکہ امیدواروں نے بھی لنگوٹ کسنا ہے۔ جوڑ توڑ بھی ہو گا، نئے اتحاد بھی بنیں گے۔ پرانے دوستوں کو چھوڑا نئے ہاتھ جوڑے جائیں گے۔ اس لئے اگر آپ ابھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیں تو یقین جانئے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ عوام کے آدھے سے زیادہ کام بھی اس شور شرابے میں مکمل، کہیں بجلی لگنی ہے، تو کہیں سڑکوں کی تعمیر ہونے والی ہے۔ بے چارے شو روموں والوں کی بھی سنی جائے گی ان کی گاڑیاں بک ہو جائیں گی۔ پریس میں اشتہارات کی بکنگ شروع ہو جائے اور بہت سارے بے روزگاروں کے گھروں میں بھی ”ہنڈیا“ بننی شروع ہو جائے گی۔ عوام کو اس مخمصے سے نکالیں کہ الیکشن فلاں تاریخ ہوں گے تاکہ ہر طرف سکون ہو جائے۔

مزیدخبریں