چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی ميں نورکنی لارجربنچ نے کيس کی سماعت کی، اس موقع پر سيکرٹری داخلہ صديق اکبرعدالت ميں پيش ہوئے، چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ريمارکس دئيے کہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ آرٹیکل نوکے تحت شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ عاصمہ جہانگیرنے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کوپاکستان آنے میں سیکیورٹی خدشات ہیں۔ جس پرسیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہمیں دھمکی کی نوعیت بتائی جائے، پھراس کے مطابق سیکیورٹی فراہم کرینگے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کیا سیکرٹری داخلہ حسین حقانی کو ایم آئی اور آئی ایس آئی سے سیکیورٹی دلائیں گے۔ عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ حسین حقانی کو اگر پاکستان میں دھمکیاں نہیں ملی تھیں تو وہ پی ایم ہاؤس میں کیا کر رہے تھے، یہ خود انہیں آئی ایس آئی سے چھپاتے رہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ حسین حقانی نے بیان حلفی دیا تھا کہ جب ضرورت ہوئی تووہ پاکستان آ جائینگے، بتایا جائے انہیں بلانے کی کیا ضرورت ہے، حسین حقانی نہ تو مفرورہیں اور نہ ہی ملزم، چيف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حسين حقانی نے واپس آنے کی کمٹمنٹ کی تھی جوانہیں پوری کرنی ہوگی۔ عاصمہ جہانگيرکا کہناتھا کہ وہ دسمبر ميں دستياب نہيں ہوں گی جس کے بعدعدالت نے ہدایت کی کہ حقانی کی سیکیورٹی کے انتظامات مکمل کرکے سماعت سےدو ہفتے قبل رجسٹرارکوآگاہ کریں۔ کیس کی مزید سماعت جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
میمو کیس:سپریم کورٹ نے حسین حقانی کی سیکورٹی کےلئے ان کی وکیل کو سیکرٹری داخلہ کوتحریری درخواست دینے کی ہدایت کردی.
Nov 13, 2012 | 12:14