سپريم کورٹ نے پي آئي اے ميں مالي بے قاعدگيوں کے مقدمے ميں تمام فريقين کو نوٹس جاري کرتے ہوئے پي آئي اے انتظاميہ سے تین دسمبرتک جواب طلب کرليا

چيف جسٹس افتخار محمد چوہدري کي سربراہي ميں تين رکني بنچ نے کیس کی سماعت کي، عدالت نے پي آئي اے کے وکيل کو ہدايت کي کہ وہ ٹرانسپرنسي انٹرنيشنل کا چيف جسٹس کے نام خط پڑھيں، وکيل راجہ بشير نے خط پڑھ کر عدالت ميں سنايا، خط ميں پي آئي اے ميں بڑے پيمانے پر مالي بے ضابطگيوں اور نئے جہازوں کي خريداري ميں عدم شفافيت سے آگاہ کيا گيا ہے، چيف جسٹس نے استفسارکیا کہ انتظاميہ نے معاملات ميں بہتري کےلئے کيا اقدامات کئے ہيں، وکيل راجہ بشيرنے بتایا کہ نئي انتظاميہ نے ٹرانسپرنسي انٹرنيشنل سے شفافيت يقيني بنانے کےلئے معاہدہ کيا ہے اوراب وہ طيارے نہيں خريدے جارہے، چيف جسٹس نے پوچھا کہ کيا ادارے کافرانزک آڈٹ کرايا ہے؟ ذمہ داري تو عائد کرنا پڑے گي، يہ وہ ائيرلائن تھي جس نے بڑي کمپنيوں کا مقابلہ کيا، آج اس کے جہاز پرانے ہيں اور مختلف مسائل کا سامنا ہے، چيف جسٹس نے کہا کہ نئے جہاز خريدنے ميں اب يہ الزامات سامنے آگئے ہيں، ساري دنيا بزنس کرتي ہے، پيسہ کماتي ہے، واحد ہمارا ملک ہے، پتہ نہيں يہاں کيا مسئلہ ہے، چيف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ريلوے کا کيس سنا، وہاں بھي تباہي تھي، ہميں اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ يہ قومي ادارہ ہے، جسٹس عظمت سعيد شيخ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جتنی مرضی کرپشن کرلو کوئي پوچھنے والا نہيں، بيماري کي نشاندہي کے بعد ہي اس کا علاج تجويزہوگا، انہوں نے پوچھا کہ پي آئي اے نے انٹرنيشنل روٹس کس کس کمپني کو دے رکھے ہيں، ترکي جانے کےلئے پي آئي اے کا ٹکٹ ليا ليکن ترکش ائيرلائن ميں سفرکيا، جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ پي آئي اے کے طيارے تاخير سے پہنچنے پرجرمانہ بھرتے ہيں، انہوں نے کہا کہ سنا ہے کوئي نجي ائيرلائن آرہي ہے اور سارا نزلہ پي آئي اے پرگررہا ہے، عدالت نے فريقوں کو نوٹس جاري کرتے ہوئے سماعت چاردسمبرتک ملتوي کردی اورپي آئي اے انتظاميہ کو تمام تفصيلات پر مشتمل جامع جواب جمع کرانے کي ہدايت کر دي ہے۔

ای پیپر دی نیشن