آزادی انمول ہے

بغداد کی بربادی کے وقت مسلم معاشرہ کمزور اور ریاستی انتظامیہ حملہ آور منگول افواج کی معاون تھی۔ عوام انتشار اور افتراق کا شکار تھے۔ خواص مالدار‘ بدکردار اور اخلاق عالیہ سے عاری تھے۔ علماءو مشائخ بے معنی بحث میں مصروف تھے۔ عوام و خواص ہمت و جرات سے اس قدر محروم تھے کہ جب دشمن منگول شہریوں کے قتل عام سے تھک جاتے اور تلواریں کند ہو جاتیں تو وہ شہریوں کو لائن حاضر کرکے آرام اور ہتھیار تیز کرنے کے لئے چلے جاتے اور کم ہمت شہری مسلح دشمن کے انتظار میں قطار اندر قطار منتظر رہتے کہ دشمن آئے گا اور ہمیں مارے گا اور اگر مہمان دشمن کی بات نہ مانی تو شاید ناراض ہو کر مزید نقصان پہنچائے۔ ریاستی انتظامیہ کا عالم یہ تھا کہ وزیراعظم ابن علقی اپنی سازشی ٹیم کے ساتھ حملہ آور دشمن کے معاون اور حلیف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حملہ آور منگولوں کے ہاتھ سے ابن علقی بچا نہ حاکم خلیفہ اور رعایا۔ ریاستی انتظامیہ کا قومی و ملی کردار میر جعفر اور میر صادق کا تھا، لہٰذا خود بھی مرے اور عوام کو بھی مروایا....
ایں جہاں بے ابتدا‘ بے انتہا است
بندہ غدار را مولا کجا است
غداری اور غلامی بیماری کا نام ہے۔ الٰہی پالیسی یہ ہے کہ وہ اپنے دین و وطن کی حفاظت کے لئے نئے اور ہمت و جرات کے حامل وارث حکمران عطا کر دیتا ہے....ع
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
غلامی کے عادی غلام ہی رہتے ہیں۔ آزادی کے متوالے آزاد ہی رہتے ہیں۔ جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور میں قیصر روم کو شکست ہوئی اور رومی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور کئی مظلوم اور محکوم اقوام بشمول برطانیہ کو آزادی ملی۔ برطانیہ کے شمال میں سکاٹ لینڈ وغیرہ ہیں جہاں کے عوام لڑنے مرنے کے عادی تھے اور ان کے لئے برطانوی سرزمین سبزہ بیگانہ بن گئی۔ یہ دور تقریباً 200 سال رہا اور برطانوی عوام و خواص مزاحمت و مداخلت کرنے کے بجائے سابق رومی حکمرانوں کے پاس امداد کے لئے وفد بھیجتے اور فریاد کرتے کہ ہمیں دوبارہ سلطنت روما کا حصہ بنا لیا جائے۔ دراصل غلامی فکر و عمل کا نام ہے جو نسلوں میں سرایت کر جاتی ہے اور قوم کے قلوب و اذہان کو مغلوب رکھتی ہے۔ ہندی امت مسلمہ کو آزادی خود مختار اسلامی ریاست پاکستان کی شکل میں 14 اگست 1947ءکو ملی۔ آج پاکستان کے عوام و خواص کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے مغربی تعلیم و تربیت کے پروردہ اور تہذیب و تمدن کے دلدادہ ہیں۔
پاکستان کے جملہ مسائل کا حل ریاستی پالیسی ہے۔ نیشنلزم سے زیادہ انٹرنیشنلزم کی اہداف پر مبنی ہے۔ ہمیں اپنی ریاستی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے۔ پاکستان کے تمام مسلم و غیر مسلم شہریوں کی جان، مال آل اور مال کی حفاظت ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے جبکہ پاکستان کے مقتدر طبقے کا حال یہ ہے کہ وہ آزاد ہونے کے باوجود سابق غیر ملکی آقاﺅں سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ آزاد ہیں مگر غیر ملکی پنجرے سے باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں اور جو پنجرے سے باہر ہیں وہ پنجرے کے سامنے بیٹھے ہیں اور اڑنے سے ڈرتے ہیں نیز مقتدر پرندے ریاستی اداروں کی نجکاری، غیر ملکی سرمایہ کاری، امداد اور دوستی کے دام میں باندھ کر پنجرہ بھرنا چاہتے ہیں۔ مقتدر پرندوں کو مسائل کی بنیاد پر سوچ بچار اور فکر و عمل استوار کرنا چاہئے۔
کیا قبائلی میدانی عوام کی طرح پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ریاست شہری مساوات قائم کر رہی ہے۔ اگر ڈرون حملوں کا تدارک نہ ہوا تو یہ میدانی علاقوں پر بھی ہوں گے۔ ہمیں دوست اور دشمن کی شناخت ہونا چاہئے۔ یہی قائداعظم اور علامہ اقبال کا مقصود تھا۔ پاکستان کو بہرصورت قبائلی عوام کے جان، مال اور اولاد کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری قبول کرنا چاہئے وگرنہ یہی کچھ میدانی عوام کے ساتھ بھی ہو گا۔ خانہ جنگی میں پاکستان کا نقصان اور حملہ آور اتحادی اقوام کا فائدہ ہے۔ اپنے وطن کی حفاظت سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی طرح کی جائے یہی مسائل کا حل ہے۔

ای پیپر دی نیشن