توحید پرست معاشرے کی پہچان

Nov 13, 2014

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

 دُنیائے اسلام .... جس معاشرے میں کوٹ رادھا کشن کے عیسائی جوڑے کو زندہ جلادینے کے سے واقعات روز کا معمول بن کر رہ جائیںوہ توحید پرست معاشرہ ہر گز نہیں کہلا سکتا- مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے حقیقی معنوںمیں توحید پرست معاشرے کی پہچان یوں کرائی ہے:
"The essence of Tauhid, as a working idea, is equality, solidarity, and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization." (Reconstruction, p.122-123)
گویا معاشرے میں توحید پرستی کے عملی مظاہر اخوت و مساوات اور آزادی و انصاف کے اصول و اقدار کی ترویج و اشاعت سے عبارت ہیں-جس معاشرے پر دیہہ خُدا (جاگیردار) مسلط ہوں وہ خدا پرست معاشرہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اسی طرح سرمایہ پرستی کے جنون میں مبتلا معاشرہ قارونی معاشرہ تو کہلا سکتا ہے قرآنی معاشرہ ہر گز نہیں کہلا سکتا- یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا تصور پیش کرنے اور پاکستانی معاشرے کے خدوخال کو مسلسل روشن سے روشن تر کرنے والے علامہ اقبال نے اور پھر اِس تصور ِ پاکستان کو تحریکِ پاکستان کا متحرک قالب عطا کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح نے نہایت قطعیت اور وضاحت کے ساتھ بتا دیا تھا کہ پاکستان میں نہ جاگیرداری باقی رہے گی اور نہ سرمایہ پرستی کا جنون پروان چڑھنے دیا جائے گا، بلکہ حقیقی اسلام کی روح کی بازیافت کر کے اسے روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کیا جائے گا - ہمارے تمام تر مصائب کا سبب یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فقط چند برس بعد ہماری سیاسی قیادت نے بانیانِ پاکستان کے اِس حقیقی اسلامی خواب کو فراموش کر دیا- یہ خواب فراموشی کے اسی چلن کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں کوٹ رادھا کشن کے سے انتہائی شرمناک سانحات وقوعد پذیر ہو رہے ہیں-
علامہ اقبال 1930ءکے خطبہ¿ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کرتے وقت جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کے مخالفین کی یہ دلیل بھی زیرِ بحث لائے تھے کہ اگر روئے زمین کے دیگر خطوں میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو ہندوستان میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ اقبال نے اِس کا جواب یہ دیا تھا کہ:
Because the Muslims of India are differently situated.
اقبال کا کہنا ہے کہ دُنیا کے دیگر خطوں میں مسلمان اور دیگر اہلِ کتاب ایک ساتھ رہتے ہیں-یہ سب لوگ ، عیسائی، یہودی، زرتشتی توحید پرست ہیں -مسلمانوں اور اِن سب مذاہب کے ماننے والوں کا خُدا ایک ہے- اِن میں کسی الہامی ذات پات یا چھوت چھات کا کوئی تصور موجود نہیں ہے- اِس لیے یہ سب مل کر ایک ساتھ امن و امان کی فضا میں زندگی بسر کر سکتے ہیں- اِس کے برعکس خدا پرست اقلیت میں اور بت پرست اکثریت میں ہیں-یہاںانسانوں میں دیوتاﺅں کی پیدا کی ہوئی اونچ نیچ ختم نہیں کی جا سکتی- جن معاشروں میں مسلمان دیگر توحید پرست مذاہب کے لوگوں کے ساتھ آباد ہیں وہاں توحید پرستی کی بنیاد پر ایک انسان دوست عادلانہ معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے-اپنے استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
"There are no social barriers between Muslims and the "people of the Book". A Jew or a Christian or a Zoroastrian does not pollute the food of a Muslim by touching it, and the law of Islam allows inter-marriage with the "people of the Book". Indeed the first practical step that Islam took towards the realisation of a final combination of humanity was to call upon peoples possessing practically the same ethical ideal to come forward and combine." (Thoughts & Reflections of Iqbal, p.190)
علامہ اقبال اپنے درج بالا استدلال کو م¶ثر بناتے ہوئے قرآن حکیم کی اُس آیہ¿ کریمہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں تمام توحید پرست مذاہب کے پیروکاروں کو کلمہ¿ توحید پر متحد ہو جانے کی دعوت دی گئی ہے- اقبال اس دعوت کو وحدتِ آدم کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں- جہاں تک برطانوی ہند کا تعلق ہے اقبال نے سکھ برادری کو بھی توحید پرست قرار دیا ہے- اپنی نظم ”نانک“ میں کہتے ہیں:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
اقبال اور قائداعظم ، ہر دو بانیانِ پاکستان بابا نانک کو مردِ کامل اور توحید پرست مانتے تھے- یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم ، قائداعظم محمد علی جناح جون سن سنتالیس تک پنجاب کی سکھ قیادت کو پنجاب کی تقسیم پر اصرار کرنے کی بجائے پاکستان میں شمولیت کی دعوت دیتے رہے تھے-اِس لیے کہ اُن کے پیشِ نظر پاکستان میں ایک توحید پرست معاشرے کا قیام تھا-
ہماری قومی زندگی کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اِس تصور کو آج تک حقیقت کا روپ دھارنے کی اجازت نہیںدی گئی- پاکستانی زندگی کے حقائق کی روشنی میں پاکستان کے تصور کوتلاش کرنے نکلیں تو ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آسکے گا- وجہ یہ کہ بانیانِ پاکستان کا پاکستان کے اندر ایک سچا توحید پرست معاشرہ قائم کرنے کا خواب اُس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتا جس وقت تک ہمارے ہاں برطانوی سامراج کا بخشا ہوا جاگیرداری اور سرداری نظام قائم و دائم ہے- پاکستان کے تصور کو حقیقت کے ٹھوس اور متحرک قالب میں ڈھالنے کے عمل کی جانب پہلا قدم معاشی عدل و مساوات کا قیام ہے-اگر معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات کے تصورات ہمارے ہاں حقیقت بن چکے ہوتے تو کوٹ رادھا کشن کے سے سانحات ہر گز وقوع پذیر نہ ہوسکتے، تھر میں بھوک اور پیاس سے سِسک سِسک کر مرتے ہوئے پاکستانیوں کے لیے بھیجی گئی گندم کی بوریوں میں سے مٹی کے ڈھیلے برآمد نہ ہوتے او ر سب سے بڑھ کر بانیانِ پاکستان کی اسلام کی تعبیر و تفسیر کی بجائے مُلّائیت کی فی سبیل اللہ فساد کی ”تعلیمات “معاشرے کو تہ در تہ اندھیروں میں نہ دھکیل پاتی-اِن اندھیروں سے روشنیوں کی جانب پیش رفت فقط بانیانِ پاکستان کے تصور کو اپناکر ایک سچا توحید پرست معاشرہ قائم کرنے میں پنہاں ہے-علامہ اقبال اس حقیقت پر بہت بے چین رہتے تھے کہ :
زندہ قوت تھی زمانے میں یہ توحید کبھی
آج ہے فقط اِک مسئلہ¿ علمِ کلام
علم کلام کے شعبے میں توحید پر مباحث ضرور جاری رہنے چاہئیں لیکن پاکستان میں توحیدکو ایک زندہ قوت بنانے کے لیے اقبال کی تعلیمات پر عمل لازم ہے۔

مزیدخبریں