کسی نے درست ہی کہا تھا کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے ۔عصر حاضر میں انٹرنیٹ ‘ٹویٹر ‘فیس بک ‘موبائل فون ‘ریڈیو و ٹیلی ویژن وغیرہ نے تہلکہ مچا رکھا ہے ۔ میڈیا نے دنیا کو گاﺅں کی شکل دیدی ہے ۔ ہم گھر بیٹھے چلتے پھرتے پوری دنیا سے باخبر رہتے ہیں ۔ ایس ایم ایس ‘ای میل کے ذریعے پل پل کی خبر سے آگاہی ہوتی ہے ۔ مگر کتاب جس طرح انسان کا ساتھ دیتی ہے شاید ہی کوئی اور ایسا کر سکے ۔گذشتہ روز میجر شہزاد نیئر نے ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع دی کہ معروف شاعر جان کاشمیری کا قرطاس منظر عام پر آ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جان کاشمیری صاحب قرطاس تھامے وارد ہوئے ۔ سہ ماہی قرطاس کے 335 صفحات ہیں جبکہ قیمت 300 روپے ۔ انتساب محترمہ صدیقہ بیگم کے نام ہے ۔ ٹائٹل پر خاتون کی صرف خوبصورت آنکھیں دکھائی دیتی ہیںجس سے ٹائٹل کو چار چاند لگ گئے ہیں ۔ قرطاس میں حمد ریاض ندیم نیازی ‘نعت واجد امبر ‘امام عالی مقام کے حضور سلام از قلم ہمایوں پرویز شاہد خوب ہیں۔مضامین کا سلسلہ صفحہ21 سے 131 تک پھیلا ہوا ہے ۔ غزلیں صفحہ 149 سے لیکر 201 تک ہیں ۔ جان کاشمیری کی طویل غزل خاصے کی چیز ہے ۔جو صفحہ 201 تا 210 پھیلی ہوئی ہے اور غزل کی یہ پہلی قسط ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔غزل کا اقساط میں شائع ہونا پہلی بار ہے۔اقبال خورشید نے نسیم درانی کے حالات و خیالات پر خوب روشنی ڈالی ہے ۔ آٹھ عدد افسانے قاری کو گرفت میں لے لیتے ہیں ۔بشری رحمان کا افسانہ سولر انرجی عمدہ کاوش ہے ۔صفحہ 281 تا 302 نظموں کا جہاں آباد ہے ۔ صفحہ 302 پر نظم مجھے تم سے محبت ہے قابل دید اور قابل داد ہے ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی دفعہ 302 تعزیرات پاکستان سے ہر کسی کو محفوظ رکھے ۔ قرطاس میں قارئین کے کئی ایک خطوط شائع ہوئے ہیں ۔ یہ زبردست سلسلہ ہے جسے جاری رہنا چاہیے کیونکہ خطوط سے نئی پود واقف نہیں ہے ۔ ایک وقت تھا کہ خط کا بڑی شدت سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ اب یہ ہے کہ اس کا رواج ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے ۔ خطوط غالب کا علمی و ادبی حلقوں میں ہنوز چرچہ ہے ۔ غالب کے خطوط پڑھ کر لطف آتا ہے ۔ غالب کے انداز بیاں سے یوں لگتا ہے جیسے باہمی گفت و شنید ہو رہی ہو۔ انٹرنیٹ کے استعمال کیساتھ ساتھ کتاب سے دوستی بھی ضروری ہے ۔کتاب آدمی کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتی ہے ۔ اسے تنہا نہیں چھوڑتی ۔ علم و عرفان کی بہار کتاب ہی کے دم سے ہے ۔ فضول بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کتاب کا مطالعہ کیجئے ۔ چند گھنٹے سہ ماہی قرطاس کے سنگ گزرے ۔ قلیل وقت میں شعرو ادب سے استفادہ کرنیکا خوب موقع ہاتھ آیا۔آخر پر محرم الحرام کے حوالہ سے جان کاشمیری کا تازہ کلام
کنبہ لٹا کے ضبط میں ہونا حسینؑ کا
سب کو رلا گیا ہے نہ رونا حسینؑ کا
نوری ہی کھیلتے ہیں سدا کھیل نور کا
قہر نبی ہے ایک کھلونا حسینؑ کا
ہر ایک عہد ہی مصروف آہ و زاری ہے
غم حسینؑ کی کتنی قبیل داری ہے
ہر ظلم کے خلاف بہانا ہے لازمی
انسان کا لہو ہے امانت حسینؑ کی
پیدا ہو ہم میں کیسے شجاعت حسینؑ سی
صورت حسینؑ سی ہے نہ سیرت حسینؑ سی
یہ دید کی ہے بات نہیں ہے شنید کی
دنیا نے ہر یزید کی مٹی پلید کی
تا حشر اس کے نام کی عظمت رہے گی جان
اپنے لہو سے جس نے شہادت کشید کی
نماز دل کی سچی داستاں سجدے کے نیچے ہے
زمین کی بات چھوڑو ‘آسماں سجدے کے نیچے سے
حسینؑ ابن علیؑ تیری عبادت سب سے اعلی ہے
مکاں ہاتھوں میں ہے اور لامکاں سجدے کے نیچے ہے
جناب جان کاشمیری کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے خاکسار کیلئے قطعہ تخلیق کیا‘ملاحظہ کیجئے۔
پڑھتا ہے آنسوﺅں کی زباں میں مسالمہ
ماتم کی رت کو جانے وسیلہ وہ چین کا
تصویر دل میں رکھے سدا ذوالجناح کی
عباس اک ملنگ ہے مولا حسینؑ کا
جان کاشمیری کا قرطاس
Nov 13, 2014