عمران خان اپنی تقاریر میں بار بار تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھنے کا حوالہ تو دیتے چلے آ رہے تھے جب ان کے دھرنوں اور جلسوں سے کوئی امپائر آئین سے ماور ا اقدام پر تیار نہ ہوا تو پھر انہوں نے ایک اور غیر آئینی مطالبہ کر دیا ہے کہ انتخابی دھاندلیوں میں جوڈیشل کمشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل کئے جائیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتاہوں کہ عمران خان نے پاکستان کے آئین کامطالعہ نہیں کیا۔ اگر وہ آئینی دائرہ کار سے صحیح طور پر آگاہ ہوتے تو وہ کبھی ایسا مطالبہ نہ کرتے جو آئین سے یکسر متصادم ہے۔ جوڈیشل کمیشن ہوتا ہی ججوں پر مشتمل ہے۔ جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے لئے حکومت نے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا ہوا ہے۔ اب یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ کب اور کن ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمشن تشکیل دیتی ہے۔ خفیہ ادارے چاہے فوج سے تعلق رکھتے ہوں یا سول خفیہ ادارے ہوں ان کے نمائندے تو اگر حکومت بھی چاہے وہ بھی جوڈیشل کمیشن میں شامل نہیں کر سکتی۔ مارشل لاءکے ادوار میں جب ملک میں جنگل کا قانون ہوتاہے اور آئین کی حکمرانی کا تصور تک نہیں ہوتا۔ اس دورمیں بھی اگر فوجی حکمران جوڈیشل کمشن قائم کریں گے تو وہ بھی ججوں پر ہی مشتمل ہو گا۔ اگر خفیہ فوجی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کوئی کمشن تشکیل دے بھی ڈالا جائے تو پھر اسے جوڈیشل کمشن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان کو یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلیوں کی شکایات کی بنیاد پر نواز حکومت کے خلاف جمہوری دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہر طرح کا احتجاج کریں مگر آئین کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کا حق عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا۔ جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی شمولیت کا مطالبہ تو ایسے ہی ہے جیسے کل کوئی سیاست دان یہ مطالبہ کر دے کہ فوجی ادارے کا چیف سپریم کورٹ کے کسی جج کو مقرر کر دیا جائے۔ عمران خان کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ ہر محترم ادارے کے خلاف بلا ثبوت چھوٹے الزامات کاہتھوڑا لے کر چڑھ دوڑیں اور سیاسی کلچر کے شائستہ اصولوں کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔ عمران خان کی اپنی تقاریر میں تضادات کا عنصر بھی بہت زیادہ ہے۔ کبھی وہ ایک بات کہتے ہیں پھر وہ خود ہی اس کی تردید بھی فرما دیتے ہیں اب تو انہوں نے انتہا ہی کر دی ہے کہ جوڈیشل کمشن میں فوجی خفیہ اداروں کے نمائندے بھی شامل کئے جائیں۔ ان کا یہ مطالبہ آئین اور جمہوری روایات کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ ایسا مطالبہ سپریم کورٹ پر بھی عدم اعتماد کے مترادف ہے۔ عمران خان کا ٹیکنو کریٹس پرمشتمل حکومت کا مطالبہ بھی آئین کے یکسر خلاف تھا۔ معلوم ہوتاہے کہ عمران خان اپنی جماعت میں شامل قانونی اور آئینی ماہرین سے بھی کوئی مشورہ نہیں لیتے اور اگر ان کی رہنمائی آئین کے ماہر وکلا کرتے بھی ہیں تو عمران خان اسے قبول نہیں کرتے۔ کیا عمران خان جس نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں اس میں آئین جیسی مقدس کتاب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ کیا اگر عمران خان کبھی ملک کے وزیر اعظم بن ہی جاتے ہیں تو ان کی من مرضی کا نام قانون ہو گا۔ اگر آئین کا احترام نہ کیا جائے تو پھر ملک میں صرف انارکی اور انتشار باقی رہ جائے گا اگر عمران خان نے آئین سے ماورا مطالبے ہی کرنے ہیں تو پھر انہیں تحریک انصاف کا نام بھی تبدیل کر دینا چاہئیے کیوں کہ انصاف کسی قانون، ضابطے اور قواعد کو سامنے رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ قانون اور آئین کا نفاذ سب کے لئے یکساں ہو گا۔ اگر عمران خان نے ایسے مطالبات کرنے ہیں جو بجائے خود آئین سے متصادم ہوں تو پھر ان سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں آئین پر عمل کریں گے۔ شخصیات سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے موجودہ حکمرانوں پر بھی عمران خان کو تنقید کرنے کا حق پوری طرح استعمال کرنا چاہئیے۔ لیکن عمران خان کے اپنے حق میں یہ بہتر ہو گا کہ وہ ملک کے آئین و قانون سے پوری طرح واقف ہوں اور آئندہ ایسے مضحکہ خیز مطالبات سے اجتناب کریں جس سے ان کی اپنی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کا غیر آئینی مطالبہ
Nov 13, 2014