سیاسی جرگہ یا جمہوریت کا فائربریگیڈ

Nov 13, 2014

محمود فریدی

محترم سراج الحق نے جماعت اسلامی کی امارت کا حلف اٹھانے کے بعد جو اولین تقریر فرمائی تھی اس میں انہوں نے ”معاشی دہشت گردی“ کی انقلابی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسی عزم کا اظہار کیا تھا کہ اب جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار ہرگز ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان کے یہ خیالات ”سراج الحق“ کے شایان شان اسم باسمی یعنی ان کے ”حق کا سورج“ ہونے کی نوید تھے۔ ان کی ازاں بعد باتوں، انٹرویوز اور گاہے گاہے سامنے آنے والے ارشادات کے ذریعہ ان کے ذاتی پس منظر اور غریب طبقے کے لئے تڑپ نے ان کا شخصی امیج بہت بلند کر دیا مگر سیاسی جرگے کی سربراہی نے ان کی وفاقی اور جماعتی ساکھ کو کسی بھی طور چار چاند نہیں لگائے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مدھم ہوئے ہیں خال کچھ رستے کی دھول سے.... تو بے جا نہ ہو گا۔ سیاسی مکارخانے میں جس دوغلے پن، شتر غمزوں اور شاطر بازیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ جے آئی کا کوئی لیڈر بھی افورڈ نہیں کر سکتا اگر کوئی قسمت کا مارا اس خارزار میں قدم رکھ بھی بیٹھے تو اس کی درگت وہی ہوتی ہے جو کہ ہمارے عوام کی ہو چکی ہے۔ حکومت اپنی جگہ نہائی دھوئی۔ دیگر تماش بین سب کے سب دودھ کے دھلے اور جرگے کی ناکامی کا سارا ملبہ بے چارے سورج پر! سیاسی دانشوروں کا تجزیہ یہ ہے کہ جرگے کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا مقصد ہی جماعت اسلامی کو مصروف کرنا تھا کیونکہ یہ جماعت دھرنے میں شامل ہو کر اسے ناقابل تسخیر کمک بھی پہنچا سکتی تھی بلکہ دھرنوں کو تنہا کرنے کی ساری حکمت عملیاں بھی ناکام کر سکتی تھی۔ سو میثاقی دانش کدے نے کمال ہوشیار سے اپنے تمام ممکنہ مخالفین کو کسی نہ کسی مہم بازی میں مصروف کر دیا۔ جماعت کے اکابرین کو ہیرو بننے کے شوق میں مبتلا کر دیا گیا۔ یوں ایک تیر سے دوشکار ہوئے۔ دھرنا اور جماعت اسلامی سٹیٹس کو فائدے میں رہا۔ اگر سراج الحق اپنے دعوی کے مطابق کردار ادا کرتے تو لازماً ایک تیسرے کنٹینرز پر عوامی سیلاب کے ہم رکاب ہوتے۔ یوں دھرنوں کی تعداد جب تین ہو جاتی تو پھر کسی کو ادھورے سفر کے ذریعہ سودے بازی کی جرات نہ ہوتی اور یہ بوسیدہ نظام جسے کوستے آج سراج صاحب اور ان کے رفقا کی زبانیں نہیں تھکتی کسی اندھے غار میں پڑا سسک رہا ہوتا اور ملک میں موجودہ تبدیلی کا عمل کسی نہ کسی کامیاب مرحلے میں ہوتا۔ آج اگر سب زخم چاٹ رہے ہیں اور تندوتیز الزامات کی دردناک صورتحال سے دوچار ہیں تو اس میں جماعت اور اس کی اجتماعی یا انفرادی کوتاہی کا دخل ضرور ہے۔ آج بھی اگر جماعت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرکے جرات مندانہ فیصلہ (اپنے دیرینہ انقلابی م¶قف کے مطابق) کر گزرے تو صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اس قدم میں امکانات اور حسن ایجاد کی کیا کیا صورتیں مخفی ہیں انہیں صرف کوئی پیش بین نگاہ ہی دیکھ سکتی ہے۔ ایسے حالات میں امیر جماعت کو چاہئے کہ وہ جرگے کے سفر رائیگاں کا خلاصہ پیش کرکے اس کربناک بوجھ کو نہ صرف اتار پھینکیں بلکہ اپنا شایان شان حسینی کردار اپنائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سرخاب کا پر ان کی پتنگ پر بھاری گزرے اور شوق پرواز کے سبب نیک نامی کے دھاگے کی ریل بھی خالی ہو جائے۔ اپنی پرائیویٹ محفلوں میں وہی لوگ جنہوں نے جرگے کا شوشہ ایجاد کیا فرماتے ہیں۔ جرگے کا خودرو پودہ خود بخود دشت سیاست میں سوکھنے کی نذر ہو جائے گا۔ نہ اختیار واضح نہ منزل اور نہ ہی سفری دستاویزات۔ ممبران کے سروں پر اپنی اپنی تون (گوندھا آٹا) جب جس تندور میں تاﺅں دیکھیں اپنی اپنی روٹی چپکا دیں۔ نہ ادارتی چارٹر نہ روڈ میپ بس سفر ہی سفر! آوارہ گردی سیر سپاٹا یہ تھا جرگے کا کل اثاثہ:۔
تھیں سزائیں تو بہت سی اور بھی
خود چنی ہم نے جناب آوارگی
کوئی کہتا ہے سیاسی جرگہ نہیں جمہوریت کا فائر بریگیڈ ہے وہ بھی شوقیہ اور خودرو کھٹارا باڈی، پیٹر انجن شور زیادہ رفتار کم بلکہ نہ ہونے کے برابر!
خدارا طعنوں کی دلدل اور ٹھٹھوں کی محفل سے نکل کر عامتہ الناس کی امنگ اور صدا پر کان دھریں۔ یہ لمحے روز روز نہیں آتے نہ یہ مواقع سالہا سال ہر موسم پنپتے ہیں۔

مزیدخبریں