حالیہ یوم اقبال پر ان کے وہ اشعار بار بار یاد آتے رہے جن میں انہوں نے مسلمانوں کے اوصاف حمیدہ کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے جبکہ ایک اور موقع پر انہوں نے مسلمانوں کی مجموعی زبوں حالی اور ناگفتہ بہ کردار سازی کو دیکھ کر طنزیہ رائے دی تھی کہ اب اس طرح کے مسلمانوں کی اکثریت رہ گئی ہے کہ جنہیں دیکھ کر یہود بھی شرما اُٹھیں۔ اقبال کی اس رائے دہی کو لگ بھگ صدی ہونے کو ہے تاہم من حیث القوم مسلمان آج بھی اپنی گروہی مفاد پرستی، فساد پسندی، دھن دولت کے، لالچ اور جھوٹ و فریب کے زیر اثر اقبال کی اس رائے کو سچ ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ابھی چند دن پہلے واہگہ بارڈر پر جس طرح بے گناہ لوگوں، خواتین اور بچوں کا خون بہایا گیا، اس کے پیچھے بھی یقینی طور پر کسی ”مسلمان“ بھائی کا ہاتھ تھا، بھلے وہ کسی بھی دشمن طاقت کا آلہ کار بنا ہو۔ بدقسمتی سے مسلمان نسبتاً جلد غداری اور لالچ میں آ کر قتل و غارت گری پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال ابھی واہگہ بارڈر کے سانحہ کی ٹیس باقی تھی کہ کوٹ رادھاکشن کا حادثہ پیش آ گیا۔ ”مسلمانوں“ نے اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ ظلم، بربریت، وحشت اور درندگی کی ایک اور واردات کر ڈالی۔ اس حادثے اور سانحہ کو کم از کم اور نرم سے نرم الفاظ میں وحشت اور درندگی ہی سے تعبیر کیا جائے گا، جب ایک بپھرے ہوئے جنونی ہجوم نے مسیحی بھٹہ مزدور میاں بیوی کو ان کے تین کمسن روتے بلکتے بچوں کی موجودگی میں مار مار کر تقریباً بے جان کر دیا اور جان کنی کی حالت میں اور بھٹے کی جلتی ہوئی آگ میں پھینک کر راکھ کر ڈالا، ان دونوں مقتولین پر مقدس اوراق کی مبینہ بے حرمتی کا الزام تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ الزام راسخ بھی تھا تو بھی اس کے لئے قانون اور عدالت کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کیا جانا چاہئے تھا نہ کہ اس وحشت اور درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا جس کا ہرگز نہ کوئی جواز بنتا تھا اور کوئی محل۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹہ مالک ان کے ذاتی کارندوں اور علاقے کے ”مولوی صاحب“ نے صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھٹہ مالک کا ان مقتولین میاں بیوی سے پیسوں کے لین دین کا جھگڑا تھا جبکہ متعلقہ ”مولوی صاحب“ رضا کارانہ طور پر ”فی سبیل اللہ فساد“ اور تنازع ہائے خواہ مخواہ کو برپا کرنے کے خبط میں مبتلا تھے، چنانچہ انہوں نے مسجد کے لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے آس پاس کے لوگوں کو اس ”جذبہ ایمانی“ سے معمور کر دیا جس کے تحت انہوں نے ایک بے قابو ہجوم کی شکل اختیار کر کے انتہا درجے کی یہ بہیمانہ اور بے رحمانہ کارروائی کر دی۔ اب اس حرکت اور کارروائی کے عقل میں کوئی عوامل پوشیدہ نظر آتے ہیں، کیا اس مبینہ الزام کے ضمن میں مقتولین کا مو¿قف سُنا گیا، کیا ان کو اپنی صفائی پیش کرنے اور اپنے مو¿قف کی وضاحت کا موقع فراہم کیا گیا اور جو مبینہ حرکت یا کوتاہی مقتولین سے منسوب کی گئی ہے کیا اس کا ارتکاب انہوں نے دانستہ طور پر کیا تھا یا محض نا دانستگی میں ایسا واقعہ رونما ہوا اور اگر بفرض محال یہ الزام سچ بھی ثابت ہو جاتا، تو بھی اس کے لئے قانون اور عدالت کا راستہ کیوں نہ اختیار کیا گیا اور ایک ہجوم یا گروہ کو یہ اختیار کیوں کر دیا جا سکتا ہے کہ وہ بذات خود قانون اور عدالت کے فرائض ادا کر کے کسی کو بھی کہیں بھی سزا سنا دے اور اس پر زبردستی عملدرآمد بھی کروا ڈالے۔
میرے بزرگ دوست اور ”خمِ کاکل“ کے خالق مشہور شاعر سیف الدین سیف مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہجوم کا کوئی ایمان نہیں ہوتا اس کو جس طرح لگاﺅ لگ جاتا ہے اور جس طرف چلاﺅ، چل پڑتا ہے، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو ملاحظہ کرتے کہ ایک بھٹہ مالک کے ایما پر اور ایک مولوی صاحب کی قیادت میں ”جذبہ ایمانی“ سے معمور ایک بپھرے ہوئے بے قابو ہجوم نے کس طرح ایک نہتے غریب اور بے بس مسیحی جوڑے پر ”ایمان افروز“فتح پائی اور اس کے تین روتے دھوتے بلکتے اور اپنے ماں باپ کو المناک انجام سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھتے بچوں کو بے یارو مددگار کر دیا۔ کیا یہ بچے اپنی باقی ساری عمر اس ذہنی صدمے اور دردناک قلبی کیفیت سے باہر نکل پائیں گے جو انہوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ روا رکھے جانے والے اسی ظلم و ستم کے نتیجے میں محسوس کی ہے۔ کیا ہماری حکومتوں کے پاس اس طرح کے بار بار دہرائے جانے والے المناک واقعات کے سدباب کے لئے کوئی تدبیری منصوبہ بندی موجود ہے اور کیا ہمارے بڑے مولوی صاحبان، اس طرح کے احساس معاملات کو گراس روٹ لیول تک لے جا کر سلجھا پائیں گے جہاں ہمارے چھوٹے چھوٹے مولوی صاحبان کا سکہ بروزنِ فتویٰ چلتا ہے اور جو سادہ لوح لوگوں کے مذہبی جذبات کو اعتدال پر رکھنے کے بجائے انہیں برانگیز کرنے پر ہر وقت اور بروقت کمربستہ رہتے ہیں حالانکہ اس ضمن میں ہماری اپنی الہامی کتاب مقدس کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کی الہامی اور مقدس کتابوں نے عفو و درگزر اور صلہ رحمی کا درس دیا ہے لیکن ہم آج کے مسلمان، وہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔