طوفانی بارشوں سے قبرستانوں کی تباہی

Nov 13, 2014

شہر یار اصغر مرزا

قبرستان میانی صاحب لاہور کا سب سے بڑا اور قدیمی قبرستان ہے۔ لاہور کی موجودہ آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ اور شہر بھر کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہو گا جن کے والدین، بہن بھائی اور عزیز و اقارب یہاں دفن نہ ہوں۔ اگر چہ شہر میں ہر نئی یا پرانی آبادی کے ساتھ بھی چھوٹے قبرستان بنائے جا رہے ہیں لیکن قبرستان میانی صاحب چار پانچ سو سال پرانا ہونیکی بنا پر ایک بڑی اہمیت اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قبرستان کا انچارج ڈی سی او لاہور ہوتا ہے۔ اس کے انتظام کیلئے صوبائی محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ بطور سیکرٹری قبرستان بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ آج کل یہ فرائض محترم سید انجم شکیل گیلانی بطور سیکرٹری قبرستان اور فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عام طور پر سرکاری افسران اپنی اصل ڈیوٹی بھی پوری دیانتداری سے انجام نہیں دیتے اور ان کے خلاف عوامی شکایات کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ مگر شکیل گیلانی صاحب اس لحاظ سے منفرد سرکاری افسر ہیں جو دوہری ذمہ داری کو نہایت احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں، اور روزانہ رات گئے تک قبرستان کے مسائل کے حل اور ان کی بہتری کے لئے ماتحت عملہ سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ ان کے ایک انتہائی محنتی اور مخلص سکیورٹی آفیسر محترم بشیر احمد بھی ہر وقت اپنے سکون اور آرام کو ترک کر کے قبرستان کی بہتری کے لئے سرگرم نظر آتے ہیں۔
معمول کے مطابق لوگ عیدین اور محرم کے پہلے عشرہ میں اپنے پیاروں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ محرم میں قبرستان میں جن قبروں کو نقصان پہنچا تھا، انہیں ٹھیک کرا لیا گیا ہے، ان میں سے کچھ تو مسلسل آنے والے لواحقین نے ان سے تعاون کیا ہے اور سینکڑوں لاوارث قبروں کو بشیر احمد صاحب نے مخیر حضرات سے درخواست کر کے مٹی کی لا تعداد ٹرالیاں ڈلوا کر اصل حالت میں کر دیا ہے۔ بہاولپور روڈ پر حضرت واصف علی واصف کی پچھلی جانب لاوارث مردوں کا قبرستان ہے جو بالکل نیچے بیٹھ گیا تھا جسے مٹی کے ذریعہ اونچا کر کے درست کر دیا گیا ہے۔ دنیا میں جن کا کوئی نہیں ہوتا، ان کا خدا تو ہوتا ہے، اس طرح لا وارث قبروں کے لئے بھی مخیر حضرات نے ہی امداد کی ہے۔سکیورٹی آفیسر بشیر احمد نے بتایا کہ میانی صاحب میں روزانہ پندرہ سے بیس جنازے آتے ہیں۔ حکومت فی قبر ایک ہزار روپے، جبکہ سادہ قبر بنانے کیلئے آٹھ ہزار روپے لاگت آتی ہے کوئی قبر پکی کرانا چاہے تو اسکی سرکاری فیس بیس ہزار روپے ہوتی ہے۔ اس طرح جس طرح عوام کی زندگی میں وی آئی پی کلچر نظر آتا ہے اسی طرح قبرستانوں میں بھی موجود ہے۔ جہاں کچھ قبریں سنگ مرمر کی بھی موجود ہیں۔ قبرستان میں 45سرکاری ملازمین ہیں، جنہیں قبرستان کمیٹی تنخواہ دیتی ہے۔ حکومت نے قبرستان میں مدفون سے تو منہ موڑ لیا ہوا ہے بلکہ قبرستان کے ملازمین سے بھی کوئی سہولت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اور ان ملازمت، کوئی مہنگائی الاﺅنس، میڈیکل، یا گریجویٹی کی سہولت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسسٹنٹ سکیورٹی آفیسر صفدر شاہ صاحب چالیس سال مردہ لوگوں کی خدمت کرتے کرتے دوران ڈیوٹی انتقال کر گئے تو ان کی بیوہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد ان کے گھر کا چولہا ہی بند ہو گیا ہے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرنے والے صفدر شاہ کی دو جوان بیٹیاں بھی غیر شادی شدہ ہیں جو کسی رہبر یا ایسے محسن کی منتظر ہیں جو ان کے ہاتھ پیلے کرنے میں مدد کر سکے۔ اس واقعہ نے قبرستان کے ماحول کو مزید سوگوار اور غمگین کر دیا جو زندہ دلان لاہور کے لئے ایک چیلنج ہے۔ یقیناً کوئی ایسا شخص آئیگا جو صفدر شاہ کی روح کو خوش کریگا، جو لاکھوں روحوں کو خوش کر چکا ہے۔ اس قبرستان میں ہزاروں مشاہیر میں ایک تازہ اضافہ لاہور میں واحد دفن نشان حیدر میجر شبیر شہید کا مزار بھی ہے، دیگر نشان حیدر پانیوالے شہداءاپنے اپنے شہروں میں دفن ہیں۔ میجر شبیر شہید اپنی وصیت کے مطابق اپنے ایک دوست کے ساتھ دفن ہیں جو اہل لاہور کیلئے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اسی ضمن میں حضرت طاہر بندگی، اور غازی علم دین شہید بھی یہیں دفن ہیں۔ ایم آر شاہد صاحب نے قبرستانوں میں مدفون افراد پر تحقیق کر کے سالہاسال کی جدو جہد کے نتیجہ میں جو کتابیں شائع کی ہیں، وہ ایک بڑا سرمایہ ہے۔ انہیں بھی زندہ لوگوں کی بجائے دفن حضرات سے ہی پذیرائی ملے گی۔

مزیدخبریں