اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں اسلام آباد کچہری میں دھماکے اور فائرنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے متاثرہ افراد کے معاوضوں میں اضافے سے متعلق نظرثانی کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کئے قدامات سے متعلق رپورٹ 10دسمبر تک طلب کرلی ہے۔ ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ بارز کے صدور نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کی جوڈیشل کمشن رپورٹ میں دی گئی 30 سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوا، واقعہ کو آٹھ ماہ گزر چکے ہیں، معاوضہ ملا نہ طبی سہولیات تاحال سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کیا جارہا ہے، ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی، ڈسٹرکٹ بارکے صدر نے کہا کہ ایک وکیل اور عام شہری کو 5لاکھ جبکہ مرنے والے آفیشل کو ایک کروڑ کا معاوضہ دینا امتیازی سلوک ہے اگر عدالت کچھ نہیں کرسکتی تو سوموٹو کیس سپریم کورٹ سے ختم کیا جائے، فریقین کسی اور عدالت سے رجوع کرلیتے ہیں اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت انڈر پریشر نہیں ہوگی الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کرکیا جائے وگرنہ عدالت اسکا بھی ایکشن لے گی جس پر نصیر کیانی نے معذرت کرلی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کو ہر وقت کچہری میں موجود ہونا چاہئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ زخمیوں کے علاج کے لئے جو ادویات ہسپتال میں موجود نہیں وہ ادویات یا اس کی رقم حکومت فراہم کررہی ہے کم زخمی کے لئے 25اور شدید زخمی کے لئے75ہزار روپے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ مرنے والے کے لواحقین کے لئے 5لاکھ روپے دیئے جارہے ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعمیراتی کام کروا رہے ہیں جبکہ اس کے پلاٹ میں اضافی تین ایکڑ کی جگہ دی گئی ہے اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ کچہر ی والوں کے لئے کیا کیا ؟ یہ تو ہائی کورٹ کے لئے ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ کچہری وہاں شفٹ کردی جائے گی، ایف آئی اے کے سابق پراسیکوٹر چودھری ذوالفقارکو اس امداد کے علاوہ بھی کچھ رقم دی جائے گی واقعہ کے وقت ڈیوٹی پر موجود 47پولیس اہلکاروں کے خلاف چارج فریم کیا گیا جن کے خلاف محکمانہ کارروائی چل رہی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ تقریباً تین کروڑ کی امداد ہے اس کے علاوہ بھی حکومت ایسے واقعات کے متاثرہ افراد کو امداد دیتی رہتی ہے کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک ہی بار رقم لگا کر انفراسٹرکچر کو بہتر کرلیا جائے۔