ہمارے ایک فاضل کالم نگار سرور منیر رائونے اپنے کالم میں عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار شکسپئر کی جنم بھومی اور آبائی گائوںاسٹیٹ فارایون کا خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے تاہم رومیواینڈ جولیٹ کی بجائے ڈرامہ ہیملٹ اُنکے فن پاروں میں سے ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے- جس میں شکسپئر نے ڈنمارک کے بادشاہ ہیملٹ کی داستان پیش کی ہے- جسمیںاُسکے سگے بھائی نے اُسکی خاتونِ ائول کی ملی بھگت سے اُسے مروا کر تخت پر قبضہ کرلیا- پاکستانی سیاست میں بیوی کو مروا کر تخت نشین ہونے کے چٹکلے الزامات سوشل میڈیا پر آتے رہتے ہیں- اقبال نے دین کی سیاست سے جدائیگی کو چنگیزی قرار دیا ہے- آج بھی سیاست اور اخلاقیات ایک دوسرے کی سوتنیں نظر آتی ہیں- مریم اور حمزہ کی سیاسی رقابت کھلا تضاد ہے- خدشات کوئی بھی ہوں کہ ریحام خان یا اسکے بچے عمرانی سیاست پر قبضہ کرنے کے جرثومے رکھتے تھے یا نہیں- قابلِ عزت ساتھی کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ کہتی ہیں کہ ریحام خان سونیا گاندھی بننا چاہتی تھیںاور سیاسی کمال حاصل کرنے کیلئے کسی حد سے بھی گزر سکتی تھیں- انگریزی محاورہ ہے کہ" کنگشپ نوز نو کنگشپ "تو پھر پہلی نظر میں عمران خان جیسے کھلاڑی کا ریحام کے مبینہ جال میں گھِر جانا اور پھر ساتھی سیاست دانوں ، ہمشیرگان اور ریحام کے رقیبوںکی نشاندہی پر بلدیاتی الیکشن سے ایک روز پہلے اچانک علیحدگی کا نقارہ بجا دینا کوئی اچنبہ نہیں تھا- آج وہی منی جو کئی راونوں کی قید سے چھٹکارا پا کر رام کے بنی گالہ میں قائم سورگ میں پدھاری تھی وہ بدنام ہوگئی جبکہ رام کے بارے میں انگلی اٹھانا تو ہمیشہ سے ہی پاپ سمجھا جاتا ہے- طیبہ ضیاء چیمہ سے اتفاق ہے کہ قائدین کی زندگی انکی ذاتی زندگی نہیں بلکہ عوامی زندگی ہوتی ہے جسمیں قائد کے سنجیدہ فیصلے قوموں کی حیات میںنہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں-
NA-122اور بلدیاتی الیکشن میںمقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا لیکن ہمارے اکثر ساتھی کالم نگاروں نے پی ٹی آئی کی حکمت ِ عملی میںسقم ہائے کی خلوصِ نیت سے بروقت نشاندہی کی تھی- خبر گرم تھی کہ غالب کے پُرزے اڑیں گے، دیکھنے ہم بھی گئے تماشہ نہ ہوا- پتے پہ پتا اور اب پھر دھاندلی کا ٹھپہ، اناڑی کا کھیلنا کھیل کاستیاناس ، پکا لوہار کبھی اپنے اوزار کو الزام نہیں دیتا وہ یہی کہتا ہے کہ چوٹ اس وقت نہیں لگی جب لوہا گرم تھااور سو سنار کی، ایک لوہار کی - لگتا ہے سوناروں کو لوہاروں کی شاگردی اختیار کرنی پڑیگی- خاکسار نے اپنے سابقہ کالم دیگی چرغہ چرغہ روسٹ میں قائد اعظم کی سیاسی بصیرت اور حکتِ عملی کا ہلکا سا ذکر کیا تھا - بلاشبہ پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جو جماعت اسلامی اور طاہر القادری کی عوامی تحریک کے برعکس عوام میں سیاسی قبولیت رکھتی ہے اور اس وقت سیاسی افق پر موجود خلاء کو پُر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور تبدیلی کی خواہاں ہے - پڑھا لکھا وہ طبقہ جسکے لیے تبدیلی چہ معنی وارد از خود تبدیلی کا خواہش مند ہے اور اگر یہ طبقہ چاہے تو واقعتا تبدیلی آسکتی ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی سے معلوم ہوتا ہے کہ "ہنوز دلی دُور است " اور جسکا سب سے بڑا نقصان خود ملک اور قوم کو ہوگا کیونکہ آئین کے چند بنیادی اصولوں نظریہ پاکستان، بنیادی حقوق، عدلیہ کی آزادی ، قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی کے علاوہ جو ایک اہم ترین اُصول کاربند ہے وہ چیک اینڈبیلنس ہے- عدلیہ کا پارلیمنٹ پر، پارلیمنٹ کا انتظامیہ اور عدلیہ پر ، اپوزیشن کا حکومت پر اور سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر اور پی ٹی آئی بہرحال چیک اینڈ بیلنس کے موجودہ خلاء کو پر کرنے والی اہم جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے - تاہم اسکے چیک اینڈبیلنس کا چراغ اتنا تند و تیز ہے کہ یہ اپنے ہی گھر کو آگ کی لپیٹ میں لینا شروع کر رہا ہے- عمران خان ایک کرشمہ ساز شخصیت ہیںلیکن ابتک کرشمہ ساز سیاست دان نہیں بن پائے ہیں- انہوں نے قائد اعظم کے برعکس اپنی سیاست کو تعمیری خطوط پر اُستوار کرنے کی بجائے نہ صرف مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم بلکہ سرکاری افسران، تاجران و دیگر کئی طبقات کی بدترین مخالفت کی حکمتِ عملی پر اُستوار کیا ہے - حلقہ NA-122 اور بلدیاتی الیکشن میں مغلپورہ اور گڑھی شاہو جیسے علاقوں میں ایاز صادق کا ووٹ پیچھے ہٹا کہ وہ علاقہ میں نہیں آئے لیکن سمن آباد اور دیگر پڑھے لکھے علاقوں میں ووٹر نے ن لیگ سے نفرت نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے تبدیلی کے منشور سے بے راہ روی پر اجتناب کیا ہے - غیرموثر عوام رابطہ کی حالت یہ ہے کہ عمران خان نہ تو 26اکتوبر کے زلزلے کے دوران موثر موجودگی ثابت کرسکے اور نہ ہی بلدیاتی الیکشن میں لاہور حاضر ہوکر اپنی شخصیت کا رنگ جماتے قائد اعظم کے نقشِ قدم پر چلتے مقبولیت حاصل کرسکے- خاکسار آج بھی سمجھتا ہے کہ الیکشن2013ء میں شدید چوٹ کے باوجود عمران خان اگر ایمبولینس میں لیٹے لاہور میں صرف چند گھنٹوں کا دورہ کرلیتے تو انکی شخصیت کے کرشماتی اثرات نہ صرف ووٹر، سپورٹر پر بلکہ انکی ثانوی قیادت اور پولنگ ایجنٹس پر اتنے مضبوط ہوتے کہ نتائج مختلف ہوسکتے تھے- یہی حال بلدیاتی الیکشن میں بھی رہا - عمران خان تو دور کی بات لڑکھڑاتے چوہدری سرور کے علاوہ کوئی اور اہم شخصیات بھی الیکشن کی نگرانی نہ کرتی دکھائی دی-پارٹی کے اندر اندرونی تقسیم، غیر مربوط کوشش، سہل پسندی، ثانوی قیادت کا فقدان ، پڑھے لکھے طبقہ کا روایتی سیاست سے نالاں ہونا، مثبت، سنجیدہ اور سُلجھی سیاست اور ووٹر کو متحرک کرنے کے داوپیچ کی کمی اور انتظامیہ کیساتھ محض تصادم کی حکمتِ عملی ایسے حقائق ہیں کہ جن سے دکھائی دیتا تھا کہ پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان عوام میں ہمدردی اور اپنایت میں اضافہ کرنے کی بجائے اسے کھورہے ہیں محاورہ یہ بھی ہے کہ بندہ مانگے آٹا اسے آٹے کا بھی گھاٹا اورعورت مانگے پیڑے اُسے دینے والے بتھیرے- نجانے ریحام خان کی داستان کہاں تک پہنچے اور پی ٹی آئی کو کتنا متاثر کرے آنے والا وقت بتائے گا- تاہم عمران خان موجودہ حالات میں ذاتی اور سیاسی پسپائیوں پر بقول شاعر یہ کہتے دکھائی دے رہے ہوں گے کہ -:
تجھے بھی اُداس کرنا خود بھی رونا تھا
یہ حادثہ میری جاں کبھی تو ہونا تھا