بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ

ہماری سیاست میں یہ تاثر ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ مزاحمت کے جذبوں کو ہمیشہ کے لیے گہری قبر میں دفن کر دو۔ آزادی کی تڑپ کو ختم کرنے کے لیے ہر قطرہ خون نچھوڑنے کے لیے نئی کہانیاں تراشی جا رہی ہیں۔ مخالفین کو گردن جھکا کر چلنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جبر کے سامنے سر ’’نیواں‘‘ رکھنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ شاید ہمارے ارباب فکر و دانش بھول گئے کہ توپ و تفنگ سے زمین بوس ہو جانے والی عمارتیں پھر تعمیر ہو جاتی ہیں تیروں، تلواروں اور بندوقوں سے لگنے والے زخم ایک نہ ایک دن بھر جاتے ہیں لیکن لوگوں کے ساتھ کی ہوئی ظلم و زیادتی انہیں نہیں بھولتی۔ بلدیاتی الیکشن میں جو کچھ ہوا اس پر ہر کوئی انگشت بدنداں ہے کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔ (ن) لیگ کی بلدیاتی الیکشن میں چلنے والی تندوتیز ہوا نے مخالفین کے سارے چراغ گل کر دکھائے ہیں۔ کچھ علاقوں میں ایسے بھی چراغ تھے جو پھونکوں سے بجھائے نہیں جا سکتے تھے لیکن رات گئے تک رزلٹ کو ’’ لٹکا‘‘ کر انہیں بھی بے جان کر دیا گیا تھا۔
اب الیکشن کا دوسرا مرحلہ سر پر آ چکا ہے لیکن اس میں بھی وہی ہو گا جو پہلے مرحلے میں ہوا ہے۔ اس دفعہ بڑے بڑے برج الٹیں گے اور ایسے ایسے لوگوں کو چیئرمین بنایا جائے گا جنہیں اپنی جیت کی خود بھی امید نہیں ہو گی۔ عمران خان نے جب دھرنا دیا تھا تب بھی سبھی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گیں تھیں لیکن اب جب عساکر پاکستان نے انھیں ذرا ٹھیک ہونے کے بات کی ہے تو سبھی نے چوں چوں شروع کر دی ہے ۔ چیرمین سینٹ نے تو کمال کر دی ہے کہ مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔ حکومت کی ’’پوشل‘‘ پر جب عسکری حکام پائوں رکھتے ہیں تو وہ سبھی اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن جب انہیں گورننس کی جانب دیکھنے کو کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں جمہوریت کو خطرہ ہے۔ سیاستدان عوام کو بتائیں انہوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کی مراعات انجوائے کرنے کے سوا عوام کی فلاح کے کون کون سے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ زلزلہ آئے تب فوج، پولیو کے قطرے پلانے کی بات ہو تب فوج، مردم شماری کرنی ہو تب فوج، بلدیاتی الیکشن ہوں تب فوج، فیکٹری کا ملبہ ہٹانا ہو تب فوج۔ آخر بتایا جائے کہ سول ادارے کس مرض کی دعا ہیں؟ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے 1122ایمرجنسی کی بنیاد رکھی لیکن (ن) لیگ نے آتے ہی اس ادارے میں کیڑے نکالنے شروع کر دئیے ۔آج حالت یہ ہے کہ 1122کے پاس ایمبولنس کی کمی ہے جو ایمبولینس ہیں وہ کھٹارہ بن چکی ہیں۔ ان کے پاس لینٹر کاٹنے کے لیے کٹر نہیں۔ ان کے پاس مشینری نہیں جبکہ ہمارے حکمران میٹرو پر پیسہ لگا رہے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں 28ہزار شکایات الیکشن کمشن کو وصول ہو چکی ہیں۔ ان شکایات کو سنتے سنتے ضلعی حکومتوں کی مدت ختم ہو جائے گی۔ وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد کسان پیکج کی بندر بانٹ کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشن کہتے ہیں کہ فنڈز کا اجرا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر خلاف ورزی ہے تو میاں برادران کو روکا جائے۔ عابد شیر علی کی طرح انہیں بھی نوٹس جاری کرکے الیکشن کمشن میں بلایا جائے تاکہ بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ صاف و شفاف ہو سکے۔
دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے امیدواروں اور ان کے حمایتیوں سے گزارش ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنے اپنے ووٹرز کو جلد ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر لائیں جب پولنگ کا وقت ختم ہو جائے تو پھر پولنگ سٹیشن سے مکمل رزلٹ وصول کرکے وہاں سے جائیں۔ پہلے مرحلے میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ کو دئیے گئے نتیجہ میں اور بعد کے نتیجے میں فرق تھا ۔ رات کو جیت کا جشن منا کر سونے والے لوگ اٹھے تو ہار چکے تھے لہٰذا بوتھ کے اندر آپ کا ذاتی نمائندہ ہو جس پر آپ کو بھرپور اعتماد ہو۔ تاکہ اندر کوئی گڑبڑ نہ کر سکے۔ بعد میں رونے سے بہتر ہے کہ آپ پہلے ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ اپنی ٹیم کو مضبوط رکھیں۔ رابطے میں رہیں اور اپنے کارکنوں کو پرامن رہنے کی تلقین کریں۔ منڈی بہاء الدین میں میرے برادر اکبر ناصر عباس تارڑ یوسی 80سے چیئرمین کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے وائس چیئرمین مجتبیٰ الحسن ہیں۔ یورپ کی عیش و عشرت والی زندگی چھوڑ کر وہ اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کرنے کیلئے یہاں آئے ہیں۔ ناصر عباس تارڑ لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں اپنے علاقے میں انہوں نے پاکستان پبلک ایڈ ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس قدر کام کرائے ہیں کہ ان کی جیت کا مجھے پختہ یقین ہے لیکن اس کے باوجود جب کبھی میں پہلے مرحلے کے الیکشنوں کو دیکھتا ہوں تو دل کانپ جاتا ہے کہ خدانخواستہ اگر اسی طرح جھرلو چلا تو پھر اس محسن چوٹ دھیراں کا کیا بنے گا۔ 30اور 31اکتوبر کو ناصر عباس تارڑ نے فری میڈیکل کیمپ اپنے ڈیرے پر لگایا جس میں آنکھ، کان، ناک، آرتھو پیڈک، ہڈیاں، ذیابیطس شوگر، ذہنی مریض، معدہ و جگر، جلدی امراض، امراض نسواں سمیت سبھی بیماریوں کے ڈاکٹر موجود تھے۔ ان کے بھرپور اصرار کے باوجود کیمپ میں نہ پہنچ سکا لیکن حسب سابق مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اس بار بھی ذات پات اور ووٹرز سے بالاتر ہو کر خدمت خلق کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ 19اکتوبر کو عوام اسی طرح ان کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے اور انہیں بھرپور محبت سے نوازیں گے ۔
علاقے میں چوہدراہٹ قائم کردہ گروپوں نے تو کسی بھی جماعت کا ٹکٹ نہیں لیا انھیں گمان ہے کہ وہ جیت جائیں گے لیکن انھیں پہلی بار پتہ چلے گا کہ اپنے سے بڑے کی چوہدراہٹ کو للکارنا بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔اسی بنا پر سیالکوٹ سے لیکر منڈی بہائوالدین تک سبھی دوستوں سے گزارش ہے کہ اس مکمل یکسوئی کے ساتھ الیکشن لڑیں عوام باہر نکل کر ووٹ ڈالیں اور الیکشن والے دن زیادہ چوکس رہیں اور رزلٹ کی وصولی تک پولنگ سٹیشن سے باہر نہ جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...