وزیر داخلہ چوہدری نثار کو تارکین وطن کھڑے ہوکر دونوں ہاتھوں سے سلوٹ پیش کرتے ہیں، انکی حالیہ پریس کانفرنس جس میں انہوں نے یورپین (دادا گیروں) کو تنبہہ کی ہے کہ ہم آپکے الزامات کو تسلیم نہیں کرینگے جب تک آپ ہمیں ثبوت پیش نہیں کرینگے۔ یقیناً وزیر داخلہ سے اس بیان سے دنیا بھر میں موجود لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے ہیں ورنہ بیرونی ممالک نے یہ شیوہ بنا لیا ہے کہ ہر پاکستان کی تذلیل کرو، ان ممالک کا اس طرح سوچنا اور اقدام کرنا صحیح بھی ہے۔
چونکہ ہماری کسی حکومت نے اس پر کبھی کوئی اقدام نہیں کیا، جب حکومت خود ہی اپنے ہم وطنوں کا خیال نہیں رکھے گی تو راہ چلتے ہوئے شخص کو اسکی تذلیل کی اسی طرح اجازت ہوتی ہے جس طرح ہمارے وطنوںکی ہے، پاکستانیوںکی تذلیل کی وجہ صرف ان پر دہشتگردی کے الزام نہیں بلکہ ہماری معیشت، ہماری خارجہ پالیسی یہ سب اسکے عوامل ہیں، اس قدر بہادرانہ بیان صرف وہی وزیر دے سکتا ہے جو کسی بدعنوانی میں ملوث نہ ہو ورنہ اسطرح کے دلیرانہ بیانات جس کی شکایت وزارت خارجہ کے ذریعے وزیراعظم کو پہنچے گی اور پریشانیاں شروع ہوجائیں گی چونکہ وزارت خارجہ کی ہر ملک سے تعلقات کی اپنی منطق ہوتی ہے، پاکستان، یا پاکستانی کی تذلیل انہیں کم ہی نظر آتی ہے کسی بھی معاملے میں، ایمانداری سے کام تو مشاہد اللہ بھی کر رہے تھے مگر ’’بنیادیں‘‘ مضبوط نہ تھیں اس لئے گھر چلے گئے تمام تر خدمات کے باوجود۔ بہر حال چوہدری نثار جیسے بہادر اور مخلص لوگ کابینہ میں بھی پر اثر آواز اٹھا سکتے ہیں کہ بیرون ممالک پاکستانیوں کی شک کی نگاہ سے دیکھنا یہ صرف دہشتگردی کو وجہ نہیں، ورنہ یہ یورپین ممالک تو ہمارے مطلوبہ دہشت گردوں کو ’’سیاسی پناہ‘‘ کے نام پر اپنے ملکوںمیں مہمان رکھتے ہیں جنہیں انسانی حقوق کے نام پر تمام تر مراعات حاصل ہوتی ہیں یہ ان ترقی یافتہ قوموں، ملکوں کا دوہرا معیار ہے۔
مرحوم ضیاء الحق کے مارشل لاء سے اب تک نام نہاد جمہوریت ہو یا مارشل لاء کتنے ہی ایسے نام ہیں جو لندن، جرمنی، فرانس، ناروے نہ جا نے کہاں کہاں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور ان مما لک میں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں، چوہدری صاحب ہماری معیشت مخدوش ہے، ہم تو ملکوں کے پاس گداگر بن کے جاتے ہیں اگر چند اور وزراء اور وزیراعظم کو بھی آپ اپنی لائن پر لا سکیں تو یقین مانیں پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بدنامی بڑی وجہ ہماری وزارت خارجہ ہے، اسکے تعین کئے ہوئے سفارتکار، ان ملکوں میں موجود پاکستانیوں کو اتحاد کی ترغیب دینے کے بجائے سیاسی گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں، حکومتی جماعت جو بھی ہو وہ ہی اسے پاکستانی نظر آتے ہیں، اگر کوئی سفارتکار اس پالیسی کے خلاف جا کر یہ کہے کہ ملک سے باہر ہم صرف پاکستانی ہیں کوئی جماعت نہیں ہیں، حکومتی جماعت سے منسلک لوگ اور انکی منسلکی بھی کیا ہے؟ صرف تحائف کی تقسیم تک ہے، انکی شکایت پر وزارت خارجہ اپنے سینئر افسران کو انکا ماضی دیکھے بغیر تبدیل کردیتا ہے یا سزا دیتا ہے، جس سے گروہ بندی میں اضافہ ہوتا ہے، کسی بھی غیر ملک میں برسرِ روزگار کمیونٹی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے جو متحد ہو اور فضول کاموں میں ملوث نہ ہو۔
آج بھارت دنیا بھر میں اپنی سفارت کاری میں ہم سے آگے ہے۔ غیر مسلم ممالک میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمیں اتنی عزت نہیں تو مسلم ممالک میں ہماری کیا صورتحال ہے؟ اسوقت ہندوستان اپنے ہی ملک میں تمام ہی اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہوا ہے، اسکے اپنے دانشور، سیاسی لوگ مودی سرکار کے خلاف آوازیں بلند کر رہے ہیں احتجاج کے طور پر اپنے میڈل واپس کر رہے ہیں، سونیا گاندھی کی جماعت مظاہرے کر رہی ہے زیادتیوں کے وجہ سے مگر دنیا خاموش ہے جس کی وجہ ہندوستان کے سفارت کار اور اسکی خارجہ پالیسی ہے، آنے والے ہفتے دیوالی کا تہوار ہندوستان برطانیہ کے مشہور ’’ویمبلے سٹیڈیم‘‘ میں منا رہا ہے جہاں برطانوی وزیراعظم سمیت تمام دنیا کے سفارت کار شرکت کرینگے، بھارتی دہشت گرد تنظیم شیو سینا اور مودی کے وزراء گزشتہ کئی ماہ سے ان انتظامات کیلئے برطانیہ میں موجود ہیں ، یقینی بات ہے ہندوستان کی مودی حکومت اس موقع کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور بھر پور استعمال کرے گی۔ اس سلسلے میں پاکستان اپنی وزارت خارجہ کی توقع رکھتا ہے کہ اس پروپیگنڈہ کا بھر پور جواب دیا جائے۔ چوہدری نثار صاحب آپ کو ہی اس طرف بھی توجہ دینی پڑے گی۔ وزیراعظم گزشتہ دنوں برطانیہ میں تھے انہوں نے ضرور اس بات کا نوٹس لیاہوگا او ر ہدایت جاری کی ہوگی۔