ہماری ریاست کے دو بنیادی اداروں نے منگل اور بدھ کے دن شکوہ اور جوابِ شکوہ کی نذر کردئیے۔ دور حاضر میں ریٹنگ کی خاطر ٹی وی سکرینوں پر کلمہ حق ادا کرنے کا ہنر رکھنے والے فن کاروں کی چاندی ہوگئی۔ بہت رحم آیا کسی ڈاکٹر مصدق ملک کے اوپر۔
نام ان صاحب کا 2013ء کے عام انتخابات کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی نگراں حکومت کے دنوں میں سُنا تھا۔ بجلی اور توانائی سے متعلق امور کے یہ صاحب ٹیکنوکریٹ نما ماہر کہلائے گئے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھنے کے حقدار ٹھہرے۔ انہیں خبر تھی کہ ووٹ انہیں بنیادی طورپر بجلی کا بحران حل کرنے کے عہد کی وجہ سے ملے ہیں۔ طویل اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جہاں نواز شریف نے بجلی کے بحران کو پوری تفصیلات کیساتھ سمجھنا چاہا۔ Power Pointکی مدد سے بنائے چارٹوں کے ذریعے مصدق ملک صاحب یہ تفصیلات بیان کرتے رہے۔
نواز شریف صاحب کو مصدق ملک کا اندازِ سخن بہت بھایا۔ بڑے خلوص سے یہ فرض کر بیٹھے کہ شاید وضاحت کا ہنر انہیں کسی اہل زبان ِخاندان کے DNAکے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ ملک صاحب نے انہیں مگر یہ بتا کر حیران کردیا کہ بجلی کے بحران کی تمام تر جزئیات کو اچھی طرح سمجھ کر آسان زبان میں بیان کرنے کا ہنر رکھنے والا یہ ہونہار بروا تو لاہور کے ماڈل ٹائون کی پیدائش ہے۔ ماڈل ٹائون سے آئی نعمتوں میں شمار خود نواز شریف صاحب کابھی ہوتا ہے۔ مصدق ملک فوراََ ان کی حکومت کا حصہ بھی بنادئیے گئے۔ آج کل نواز حکومت کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
انہیں چند قریبی دوستوں کے ہاں کھانے کی تقریبات میں دور سے دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ شاید ایک یا دو بار ہاتھ ملانے کا شرف بھی حاصل ہوا ہو۔ ان کے اندازِ تکلم کے سحر کو لہذا اپنی آنکھوں اور کانوں سے دریافت کرنے سے محروم ہی رہا۔ کچھ خاص اینکروں کے پروگراموں میں البتہ وہ اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے منسوب جوہرِ گفتار ان پروگراموں میں اگرچہ ہرگز نظر نہیں آیا۔ اپنے چہرے پر طاری رکھتے ہیں تو بس ایک خاص مسکراہٹ جو ماں کا لاڈلہ بچہ کوئی غلط کام کرنے کے دوران پکڑے جانے کے بعد طاری کرلیتا ہے۔
بدھ کے روز قومی اسمبلی کا جو اجلاس ہوا، اس کے دوران محمود خان اچکزئی نے ISPRکی جانب سے منگل کی شب جاری ہوئی پریس ریلیز کے بارے میں ایک دھواں دھار تقریر فرمادی۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے اس بات کا ادعا بھی کیا کہ اگر دوشریفوں میں Either/Orکی صورت پیدا ہوگئی تو وہ ’’سویلین شریف‘‘ کا ساتھ دیں گے۔
ڈاکٹر مصدق ملک کو اس پروگرام کا اینکر جسے میں دیکھ رہا تھا آنکھوں میں سادیت بھری چمک کے ساتھ بار بار پوچھتا رہا کہ محمود خان اچکزئی کی بیان کردہ صورتِ حال میں وہ کس کا ساتھ دیں گے۔ ملک صاحب نے جواباََ اپنے چہرے پر مسکراہٹ ہی طاری رکھی۔مجھ ایسے بے وقوفوں کو ایک بار پھر سمجھادیا کہ گفتار کے غازی یہ ٹیکنوکریٹس درحقیقت ان شاندار دِکھنے والی عمارتوں کی طرح ہوتے ہیں جو ہمیشہ کرائے کے لئے خالی ہوتی ہیں۔
نواز شریف کی خوش بختی کہ اس بار ان کے دربار میں گفتار کے ایسے غازیوں کا ایک ہجوم جمع ہوچکا ہے۔ وہ جانیں اور ان کے نورتن اور میری طرف سے ’’اگے تیرے بھاگ لچھیے‘‘
پنجاب میں بلدیاتی انتخاب کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجانے کے فوری بعد مجھے یاد آگئی تھی کال کوٹھڑی میں ذوالفقار علی بھٹو کے لکھے نوٹس پر مشتمل کتاب نام جس کا ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ تھا۔ اس میں حوالہ تھا امریکی صدر نکسن کے زوال کا اور بھٹو کی یہ توجیہہ کہ جب کوئی فرد اقتدار کے کھیل میں اتنا طاقتور نظر آنا شروع ہوجائے کہ اسے سیاست کے روایتی Toolsکے ذریعے شکست دینا ناممکن محسوس ہو، تو طاقت ور ادارے ایسے فرد کے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ پھر سیاست نہیں سازشیں ہوا کرتی ہیں۔ بدھ کی شام سے کئی دوست مجھے اس کالم کا حوالہ دے کر پوچھ رہے ہیں کہ آیا ’’وہ وقت‘‘ نواز شریف کے لئے بھی آپہنچا ہے؟
میں ڈاکٹر مصدق ملک کی طرح اپنی طاقتِ گفتار کا حکومتوں سے خراج وصول نہیں کرتا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کا سیاسی کارکن بھی نہیں۔ ذات کا بس ایک رپورٹر ہوں۔ جمہوری نظام کی محبت میں مبتلا گفتار کا ایک غازی ہوں جس نے آج تک اپنا ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی مول نہیں لی۔ ووٹ دئیے ہیںتو صرف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے عہدے داروں کے انتخابات کے دوران۔
مجھے تو جو سمجھ میں آئے بس بیان کردیتا ہوتا ہے۔ لاہور کے حلقہ نمبر 122کے ضمنی انتخاب، پنجاب میں بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے اور عمران خان پر کالے جادو کے ذریعے آئی بلائوں کے بعد سے نواز شریف تقریباََ اسی مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں 1970ء کے ابتدائی مہینوں میں نکسن پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ وہ مقام ابھی ان سے کافی فاصلے پر ہے۔
نکسن اپنے ریاستی اداروں سے زیادہ قدآور نظر آنے لگا تھا کمیونسٹ چین سے تعلقات کی راہ ڈھونڈ لینے کے بعد۔ نواز شریف کی یہ راہ کسی اور ملک کے لئے ڈھونڈنا تھی مگر وہاں آگئی مودی سرکار۔ افغانستان کے معاملات کو وہ سمجھتے نہیں نہ ہی ان پر کنٹرول کے خواہاں۔ معاملات اس ملک کے ساتھ وہی ’’ڈیسک‘‘ سنبھالتا ہے جسے سردار دائود کے زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء کے وسط میں متعارف کروایا تھا۔ نواز شریف کے 1970ء والا نکسن بننے میں لہذا ابھی بہت دیر ہے۔
میری التجا ہے کہ 2015ء کے تقاضوں کو ذرا ٹھنڈے دل سے دریافت کرلیں اور توجہ اس ضمن میں پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کے لئے مبذول رکھیں برادر ملک ترکی پر جہاں ایک صاحب ہوتے ہیں رجب اردوان۔ اس کے علاوہ ایک اصطلاحAuthoritarian Populismبھی ہے۔ اسے اپنے ایک گزشتہ کالم میں بیان کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی تھی۔ وہ ٹرینڈ جو میں نے بیان کیا تھا فی الحال اسے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ ’’وگرنہ‘‘ کی صورت میں اپنا حال ہوگا شام اور عراق جیسا اور یہ عرض کرنے کے بعد میں چاہتا ہوں اجازت آپ سے ترکی کے اورحان پامک کے تازہ ناول "A Strangeness in my Mind"کو آئندہ دو دنوں میں ختم کرنے کی۔