ایک شخص کو ایک بریف کیس ملا جو نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے سوچا یہ مالک تک پہنچنا چاہئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح مالک تک پہنچا۔ مالک بہت خوش ہوا اس نے کہا بریف کیس میں پانچ لاکھ کی رقم تھی۔ اس میں سے یہ ایک لاکھ آپ رکھیں۔ پہلے تو وہ شخص خوش ہوا کہ انعام میں اتنی بڑی رقم مل گئی لیکن فوراً ہی اسے خیال آیا کہ انعام کس بات کا۔ یہ تو میرا فرض تھا۔ اس نے انعام کی رقم واپس کر دی اور شکریہ کہتا ہوا طمانیت کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔ اس شخص کا بریف کیس کو نہ رکھنا اور مالک تک پہنچانا ”خودی“ یعنی Ego ہے اور انعام کی رقم واپس کر دینا اس کی Super ego ہے۔ عموماً Ego کے معنی اردو میں ”انا“ کے لئے جاتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ Ego کا معنی ”خودی“ ہے۔ اور انا کے لئے انگریزی لفظ ہے Self یعنی ”میں“ انا اور خودی دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ان کے فرق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
”انا“ یعنی سیلف انسان کو خود پرست بناتی ہے۔ مغرور کر دیتی ہے۔ ”انا“ کے باعث انسان خود کو برتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں خود کو ہمیشہ درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے۔ یہی ”انا“ ہے۔ جو معاشرتی اور گھریلو نااتفاقیوں اور جھگڑوں کو جنم دیتی ہے۔ کوئی کسی کے آگے جھکنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یوں سب اپنی جگہ پر اکڑے کھڑے رہتے ہیں اور فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ انا اور غرور ہی تھا جس نے ابلیس کو حکم عدولی کی جرات دی۔ ابلیس کی ”میں“ غالب آئی اور وہ اکڑ گیا لیکن چونکہ خدائے بزرگ و برتر کو انا اور غرور سخت ناپسند ہے۔ اسی لئے اسے شیطان بنا ڈالا۔جہاں تک بات ہے ”خودی“ کی توخودی دراصل خود شناسی کا نام ہے۔ خود کو جاننا سمجھنا۔ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض سے آگاہ ہونا۔ اپنی طاقتوں‘ صلاحیتوں اور اختیارات کو جاننا اور استعمال کرنا اور اپنی حدود کا تعین کرنا ۔ اسی خودی کا ذکر اقبال کے ہاں بہت واضح طور پر ملتا ہے۔ اسی خودی کا ذکر دیگر کئی بزرگوں نے بھی کیا۔خودی دراصل اسی عظمت کا نام ہے جس نے انسان کو اشرفیت بخشی اور وہ تمام دیگر مخلوقات سے بلند تر اور افضل قرار پایا۔
خودی بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
معاشرے کے بگاڑ‘ گھریلو ناچاقی‘ خاندانی معاملات میں الجھا¶ کا باعث یہی ”انا“ ہے۔ ”انا“ پر ”انا کی فنا“ کے عنوان سے ایک کالم پہلے ہی شائع کیا جا چکا ہے جس میں حتی الامکان میں نے ”انا“ کے تمام تر یا کم از کم بیشتر منفی پہلو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس کالم کا مقصد صرف اور صرف انااور خودی کے فرق کو واضح کرنا ہے۔ کیونکہ ہم انا کو Ego کے مفہوم میں لیتے ہیں اور Ego کو انا کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
خودی ایک بہت بڑا احساس ہے۔ بہت بڑی طاقت اور بہت بڑا علم جسے جان کر انسان عظمت کی بلندی پر جا پہنچتا ہے۔ خودی ہی انسان کو غیر اﷲ کے سامنے سینہ سپر ہونے کی طاقت دیتی ہے۔ خودی ہی اپنی تمام تر صلاحیتوں سے آشکار ہو کر ان کو استعمال کرنے کی ہمت عطا کرتی ہے۔ خودی ہی کے باعث انسان غلامی کی زنجیریں توڑ دیتا ہے اور ہر قسم کی حد بندی سے آزاد قرار پاتا ہے۔ خودی ایک ایسی صفت ہے کہ جس کے باعث انسان اشرف المخلوقات کہلائے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ علامہ اقبال کے افکار کے ذریعے ہم ”خودی“ یعنی Ego کو سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں۔
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے‘ لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
یہی خودی ہے کہ انسان خود سے نکل کر خدا تک جا پہنچے اور یہی فرق”انا“ اور ”خودی“ میں ہے۔ سیلف یعنی انا انسان کے زوال کا نام ہے اور خودی یعنی Ego عظمت انسانی کی بنیاد۔ ہمیں نہ صرف اس فرق کو سمجھنا ہے بلکہ ان کی پستی سے نکل کر خودی یعنی Ego کی بلندی تک پہنچنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ کیونکہ دراصل اسی عروج کا حصول مقصدِ حیات ہے اور اسی عروج میں تسخیر کائنات ہے۔
فنا کر کے انا کو جاوداں ہو جا
خودی پا کر تو بحربے کراں ہو جا
دوام زندگی چاہے تو اے انساں
نکل کر ذات سے باہر عیاں ہو جا