’’رسی جل گئی۔۔۔‘‘

ہم مفکرین ’’تجزیہ کار‘‘ کالم نویس حضرات اپنے قومی انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اتنے فکر مند نہیں رہے جتنے پریشان ہم امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ جے ٹرمپ کی کامیابی سے ہو رہے ہیں۔ ہمارا قومی اور سیاسی المیہ یہ ہے کہ امریکا میں ٹرمپ اور بھارت میں مودی سرکار کے آنے سے ہمارے کان تو کھڑے ہو جاتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں وزیراعظم کی تبدیلی کے باوجود ہم خارجہ یا دفاعی پالیسیوں میں تبدیلی کی بات یا بحث کرنا بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ہمارے جو تجزیہ کار امریکا اور بھارت میں اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی کی دلیل دیکر پاکستان میں ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے اب مودی اور ٹرمپ کی انتخابی جیت کے بعد ان کے رونگٹے کیوں کھڑے ہو رہے ہیں؟ یہ وہ تجزیہ کار تھے جو بڑے فخر سے ساری دنیا کے جمہوری نمائندوں کو اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیتے تھے اور جمہوری عمل کو ایک ڈرامہ۔ پاکستان میں ایسے ایف اے اور بی اے پاس دفاعی تجزیہ کاروں کی کمی نہیں جو امریکی انتخابات سے پہلے ہلیری کلنٹن کو اسٹیبلشمنٹ کی امیدوار اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ برین واش تجزیہ کار یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ عوام کی رائے بھی کوئی چیز ہوتی ہے جسکے آگے قومی اداروں کو سر جھکانا پڑتا ہے۔ بھارت میں مودی جیسے اکھڑ اور مسلمان دشمن وزیراعظم اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متعصب اور غصیلے شخص کی انتخابی کامیابی اس بات کا ثبوت ہیں کہ قومی مفاد اور قومی سلامتی کا حتمی تعین کوئی ایک گروہ یا ادارہ نہیں بلکہ عوام کرتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو پاکستان کے رسہ گیر اداروں اور شخصیات کو سمجھ نہیں آتی اور یہ وہ سبق ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھایا جا رہا۔ امریکا اور بھارت میں صدر اور وزیراعظم کی تبدیلی کے ساتھ ہی ان عہدوں پر فائض نئی شخصیات کی پالیسیوں اور سوچ پر بحث کی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کے بعد آنے والے وزیراعظم اور اسکی جماعت کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر اتنی بحث نہیں ہوتی جتنی بحث ہمارے ہاں آرمی چیف کی تبدیلی پر نئے آرمی چیف اور اس کی خارجہ و دفاعی امور کے بارے میں ممکنہ سوچ پر کی جاتی ہے۔ ایسے میں معتصب مودی اور ٹرمپ کی جیت پر اتنا واویلا کیوں؟ شاید اس لئے کہ وہ پاکستانی وزیراعظم نہیں؟
بھارت اور امریکا وہ ممالک ہیں جہاں منتخب قیادت کو کبھی غدار اور کبھی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں قرار دیا جاتا۔ ان ممالک میں اداراتی ’’چین آف کمانڈ‘‘ (قیادت کی لڑی) پر آئینی ’’چین آف کمانڈ‘‘ حاوی ہوتی ہے۔ ان ممالک میں کسی ادارے کے سربراہ کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ حکومت کے سربراہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دفتر میں دھرنا دے کر حکومت سے رابطے مشروط و محدود کر دے اور حکومت کی مرضی، منشا یا منظوری کے بغیر ہی کوئی بیان بھی جاری کرے۔
تو جناب ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرا مودی جتنے بھی متعصب اور انسانیت دشمن کیوں نہ ہوں یہ دونوں حضرات اب امریکا اور بھارت کی پالیسیوں کے مالک ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اب کھسیانی بلی کی طرح یہ دلیل گھڑ لیں کہ ان دونوں ممالک میں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ہی بدل گئی ہے اور ان حضرات کو ایک منصوبے کے تحت انتخابی ڈرامے کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا ہے۔ اس دلیل کو اور کیا کہا جائے ما سوائے اس کے کہ ’’رسی جل گئی پر بل نہ گیا‘‘۔ یقین مانیں کہ اگر امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت میں نریندرا مودی اپنے ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے مختار کل ہو سکتے ہیں تو ہمارے ملک پاکستان میں سیاسی قیادت کیوں نہیں جو اس حوالے سے کئی درجے بہتر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے عسکری کیڈٹوں کی غیر آئینی حکمرانی تو نونو سال تک ’’یس سر۔۔ یس سر‘‘ کر کے گزار دیں اور اپنے ہی سیاسی کیڈٹوں کی حکمرانی کو چند سال سے زیادہ برداشت ہی نہ کریں۔ یہ دونوں تو آپ کے ہی تربیت یافتہ اور قوم کو عطا کردہ تحفے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرا مودی جیسے سیاستدانوں سے اب بااختیار اور مضبوط سیاسی حکمرانوں کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کے انتخاب پر رونے دھونے کی بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ بھارت اور امریکا میں ابھرتی سیاسی قیادت کے سیاسی مقابلے کیلئے ہمیں فوری طور پر سفارتی اور عسکری محاذ پر ایک متحدہ اور جمہوری نمائندہ قیادت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ہر حال میں کل وقتی اور بااختیار وزیرخارجہ اور وزیر دفاع کی تعیناتی کرنا ہوگی۔ قومی، خارجی اور داخلہ امور پر حکومتی اجازت کے بغیر ہر قسم کی سرکاری بیان بازی پر پابندی لگانا ہوگی۔ افغانستان اور کشمیر پر پالیسی سازی، فیصلے اور مذاکرات مال روڈ راولپنڈی نہیں شاہراہ دستور اسلام آباد میں کرنے ہوں گے۔
ہماری سیاسی قیادت کو گڑھے میں گرا کر غداری، کرپشن اور نااہلی کے بارود سے بھر پور ایسے ایسے سرکاری فائر مارے جاتے ہیں کہ ان کی مدت حکومت ٹرمپ اور مودی جیسے حریفوں سے نمٹنے کی بجائے فرینڈلی فائر سے بچانے میں ہی گذر جاتی ہے۔ یہی کچھ آصف علی زرداری کے دور میں ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنی طاقت و وسائل کو برقرار رکھنے کیلئے نئی نئی کہانیاں گھڑتی ہے۔ ایبٹ آباد میں امریکی حملے نے ہمارے ملکی دفاع میں سنگین غفلت کو آشکار کر دیا تھا۔ مگر اس دور کی حکومت نے اپنی اور اپنے اداروں کی اس غفلت پر عدالتی کمیشن کی ایسی مٹی ڈالی کہ قوم اس واقعے کو یاد بھی نہیں کرتی۔ گیارہ مئی دوسری بڑی تاریخوں کی طرح آتا ہے اور گذر جاتا ہے۔ اس ناکامی اور غفلت پر مٹی ڈالنے والے بیلچوں نے عوام کی توجہ بڑی خوبصورتی سے دو قبریں کھودنے پر لگا دی۔ یہ دو قبریں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور ایبٹ آباد آپریشن میں مبینہ معاونت فراہم کرنیوالے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی تھیں۔ ان قبروں میں ابھی تک کوئی گیا نہیں مگر ان پر کتبے لگا دیئے گئے ہیں جن پر لکھا ہے ’’غدار‘‘۔ آج بھی ان مبینہ غداروں پر لکھنے والے بہت سے تجزیہ کار موجود ہیں۔ ٹرمپ کے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دو منٹ میں رہا کروانے کے بیان پر تو بات کرنا بہت آسان ہے مگر ایبٹ آباد میں امریکی حملے سے مملکت خداد پاکستان کی سالمیت کو جس طرح چیلنج کیا گیا اس کے ذمہ دار غافل حکام اور قیادت سے متعلق یا ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کے سرکاری اجراء اور اس پر کارروائی کی بات کرنا شاید ضمیر حوالدار کیلئے اتنا آسان نہیں۔ ٹرمپ اور مودی سرکار کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت فوری طور پر اہم معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہم فیصلے پہلوانوں نے کرنے ہیں تو پھر سوشل میڈیا کی وہ ویڈیوز بھی دیکھ لی جائیں جن میں ٹرمپ اپنے حریفوں سے دنگل کر رہا ہے۔

مطیع اللہ جان....ازخودی

ای پیپر دی نیشن