اسلام آباد (رپورٹ: بشارت علی سید) گوادر بندرگاہ جو آج باضابطہ طورپر آپریشنل ہوجائے گی۔ دراصل ممتاز سیاستدان اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون کا ویژن تھا۔ بدقسمتی سے ان کے جانشینوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ فیروز خان نون نے اپنے دور حکومت میں دو ہزار چار سو مربع میل کا یہ علاقہ مسقط سے ”خریدا“ تھا۔ مسقط کے ایک شہزادے نے 1781ءمیں قلات کے حکمران کے یہاں پناہ لی تھی۔ قلات کے حکمران نے گوادر کی سالانہ آمدنی شہزادے کی گزر اوقات کے لئے اس کے حوالے کردی۔ بعد میں وہ شہزادہ جب مسقط کا بادشاہ بن گیا تو اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ برطانیہ نے 1839ءمیں علاقہ فتح کیا تو یہاں کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکمران نے 1861ءمیں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ برطانیہ نے مداخلت کی لیکن کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ سے احتراز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے مسئلہ ایک بار پھر اٹھایا‘ 1949ءمیں مذاکرات بھی ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ فیروز خان نون نے اپنی خودنوشت میں لکھا کہ ”جب میں 1956ءمیں وزیر خارجہ بنا تو گوادر سے متعلق کا غذات طلب کئے اور برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے 1957ءمیں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور گوادر کی منتقلی خوش اسلوبی سے عمل میں آگئی۔ فیروز خان نون کے مطابق ”گوادر کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ ہو وہاں پیسہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا“ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ”گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت میں بھی اسے ایک پاکستان دشمن طاقت کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتی ہے“ اس کارنامہ پر کوئی جشن منایا گیا نہ ہی قرار واقعی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور صدر سکندر مرزا سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس موقع پر کوئی جشن نہیں منایا جائے گا۔ کیونکہ اس طرح سلطان مسقط کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ تھا۔ فیروز خان نون کے مطابق ”جب وہ سرحدی تنازعات کے تصفیہ سے متعلق مذاکرات کے لئے دہلی گئے تو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہا ”آپ نے گوادر لے لیا“ میں نے جواب دیا ”جی ہاں لے لیا“۔
فیروز خان نون