”جو میں نے کیا“

امریکی صدر بل کلنٹن کا مونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی سکینڈل 1998ءمیں سامنے آیا۔ اس کی انکوائری ہوئی اور بل کلنٹن کی صدارت اور گھریلو زندگی بقااورفنا کے دوراہے پر کھڑی تھی۔ کلنٹن نے جو کیا کچھ انکوائری اور کچھ صدارتی محل چھوڑنے کے بعد انٹرویوز میں اور بہت کچھ اپنی بائیو گرافی ”مائی لائف “میں بتا دیا۔
مونیکا کے ساتھ ناجائز تعلقات جواز بھی عجیب سا پیش کرتے ہیں۔ ” سیاسی حریفوں کی جانب سے دباو¿ مونیکا سے معاشقے کی بڑی وجہ بنا“۔ بِل کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا۔” جب میں نے ہلیری کو مونیکا سے معاشقے کے بارے میں بتایا تو وہ سخت برہم ہوئیں کہ میں نے یہ بات پہلے کیوں نہ بتائی“۔ مونیکا نے بھی ایک کتاب لکھی اس میں بھی بتایا کہ اس نے کیا کیا۔ اس میں اس نے جو لکھا نام”Shame and Survival“ ہی سے ظاہر ہوجاتاہے۔وہ کہتی ہیں۔”یہ سبز کیپ کو جلانے اور” نیلے لباس“ کو دفن کرنے کا وقت ہے۔ یہ لباس شاید مونیکا نے ”تاریخی ورثے کے طور پر سنبھال کر رکھا تھا۔ بل کلنٹن نے کتاب 2004ئ، مونیکا نے 2014ءمیں لکھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی زندگی میں جو کچھ کرتے رہے وہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کھل کر بتا دیا جو امریکیوں کے ایک طبقے سے ہضم نہ ہو سکا۔ مگر یہ اکثریت میں نہیں تھے۔ اکثریتی رائے ٹرمپ کےساتھ تھی۔ ٹرمپ کی ذاتی زندگی کی برہنگی کو امریکہ کے اندر اور باہر ہدف تنقید بنایا گیا۔ اسلامی ممالک کےخلاف انہوں نے خوب زہر اگلا۔ ہلیری کلنٹن کےساتھ انکے مباحثے یک طرفہ طور پر ہلیری کی حمایت میں رہے۔ ٹرمپ کے مقابلے میں ہلیری کی جاذب نظر، سوبر اور ڈیسنٹ شخصیت تھی۔کچھ اپنی خواہشات بھی شامل ہوگئیں۔ سارے تجزئیے اسی بنیاد پر ہوتے رہے ۔ سرویز کرنیوالے بھی آسمان سے نہیں آئے تھے۔میڈیابھی ٹرمپ کو رگڑا دیتا رہا۔ جب امیدوں اور خواہشات کے برعکس نتائج آئے تو انکو Shocking غیر متوقع اور ناقابل یقین قرار دیا جانے لگا مگرسب سے بڑی حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا۔جس کی نشاندہی 9 اکتوبر کے کالم بعنوان ”جاسٹا، مسلم دشمنی کا غماز“ کالم شفق میں کی گئی تھی۔ جاسٹا(Justice Against Sponsor of Terrorism Act) امریکی کانگریس نے منظور کیا جس کے تحت سعودی عرب کے خلاف نائن الیون میں ہلاک ہونیوالوں کے لواحقین کو سعودی عرب کیخلاف ہر جانے کے دعوے دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کا جوازبتایا گیا کہ نائن الیون کے 19 میں سے 15 ملزموںکا تعلق سعودی عرب سے تھے۔ یہ سارے لوگ سعودی عرب کو بھی مطلوب تھے، سعودی عرب نے ان کی پشت پناہی کی ہوتی تو جاسٹا کا جواز بنتا تھا۔ اوباما نے اس قانون کو ویٹو کر دیا مگر اس ویٹو کو کانگریس نے ویٹو کر کے قانون پاس کرلیا۔ یہ قانون سراسر اسلام دشمنی کا عکاس ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر الیکشن جیتا تو ٹرمپ نے اسلام دشمنی کو اپنا ” منشور“ بنا لیا تھا۔ کانگریس نے بھی ٹرمپ کے ایجنڈے کے مطابق سعودی عرب کے خلاف قانون منظور کیا۔ 76 کے مقابلے میں 348 ووٹوں سے ۔ کانگریس امریکی عوامی رائے کا عکس ہے۔ امریکیوں نے ٹرمپ کو اسلام دشمنی کی بناءپر ووٹ دیا۔ وہ ٹرمپ کی شخصی کمزوریوں کو نظر انداز کر گئے۔ آج ان کےخلاف وہی لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں جن کیلئے ٹرمپ کے کردار کو ہضم کرنا ممکن نہیںمگر مظاہرے کرنےوالوں کے ہاتھ کچھ آتا دکھائی نہیں دیتا بالکل ہمارے اپنے پاکستان کی طرح۔
عمران خان نے 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا۔ بات دھرنوں، مظاہروں اور احتجاج تک پہنچ گئی، تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کی تو تین وکٹیں گرا لیں جبکہ آخری وکٹ خواجہ آصف کا کلہ ثابت ہوئی جو مضبوطی سے قائم رہی۔ چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ آصف کے مدمقابل ہارنے والے امیدوار عثمان ڈار کی درخواست اور دلائل کو مسترد کر دیا۔ انور ظہیر جمالی نے اپنے فیصلے میں جو لکھا وہ تاریخ کا حصہ بنے گا۔”اگر عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 44 کو مدنظر رکھیں تو پورا الیکشن کالعدم ہو جائے، نظام میں بہتری لانے کےلئے سٹیٹس کو کو توڑنا ہو گا۔۔۔میری زندگی میں تو یہ سٹیٹس کو ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کا کوئی بھی سینئر افسر یا وزیر اس ریکارڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ ریکارڈ خراب یا ضائع ہو جائے تو جیتا ہوا امیدوار ذمہ دار نہیں ہو سکتا“۔
چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے فرمایا کہ میری زندگی میں سٹیٹس کوٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ جہاں نور جہاں کے بارے میں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ وہ شدید بیمار ہوئیں تو انکے عمر رسیدہ ملازم نے کہا ”خدا میری عمر بھی آپکو لگا دے“ نور جہاں نے کہا ”تیری رہ کتنی گئی ہے“۔ وہ بابا اب بھی زندہ ہے۔ خدا انور ظہیر جمالی کو اتنی عمر دے کہ وہ سٹیٹس کو ٹوٹتا ہوا دیکھ سکیں۔ ویسے انکے پاس بھی سٹیٹس کو توڑنے کے فل اختیارات ہیں۔
حلقے سے ریکارڈ کا گم ہونا امیدوار کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ جیتنے والا اپنی مبینہ دھاندلی پر پردہ ڈالنے کیلئے ریکارڈ غائب کرا سکتا ہے یاہارنے والا دھاندلی سے مبرا الیکشن ہونے پر جیتنے والے کو بدنام اور اپنا کیس مضبوط کرنے کیلئے ایسا کر سکتا ہے۔ اس حلقے میں یہ تو طے ہے ریکارڈ غائب ہوا، کس نے کیا اور کب کیا یہ معمہ بہرحال حل ہونا چاہئیے۔ تحریک انصاف فیصلے سے قبل جشن منانے کی تیاری کر رہی تھی۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس اور کئی جگہ پر فیصلے میں بھی مدعی کے موقف کی حمایت نظر آتی ہے۔ مگر فیصلہ خواجہ آصف کے حق میں ہے۔ پانامہ لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے ابتدائی ریمارکس پر بغلیں بجانے والے بغلیں جھانکتے رہ سکتے ہیں۔
پاکستان میں راتوں رات نتائج تبدیل ہو جاتے ہیں 2002ءکے الیکشن میں تو ایسا اندھا دھند ہوا۔ کئی ہارنے والے رات جادو کی جو چھڑی گھما کر جیت جاتے ہیں وہ بھی ایک کتاب لکھیں، جو میںنے کیا“ شاید یہ چانکیہ اور میکاولی کی تصنیفات کو بھی مات دیدے۔
14 سال تک گورنر سندھ رہنے والے عشرت العباد نے کہا ہے ”جو میں نہ کہہ سکا“ کے نام سے کتاب لکھوں گا۔ عشرت العباد بظاہر بڑے مدبر اور ڈیسنٹ نظر آتے ہیں مگر ان پر قتل ، فائرنگ، بھتے اور بلوے سمیت کئی الزامات کے تحت بیسیوں مقدمات درج ہیں۔ حکیم سعید کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا جاتا ہے۔ الطاف کی ایم کیو ایم کےلئے وہ مغضوب، مصطفے کمال کی پاک سرزمین پارٹی کیلئے نا مطلوب ہیں۔ جو وہ نہ کہہ سکے اس سے کسی کو دلچسپی نہیں، انہوں نے جو کچھ کیا لوگ وہ جاننا چاہتے ہیں۔ ”جو میں نے کہا“ وہ اس پر کتاب لکھیں اور یہ انکے پاس ایسے اعترافات کا سنہری موقع ہے۔ صولت مرزا نے سزائے موت کے فیصلے کے بعد سلطانی گواہ بننے کی کوشش کی جو بے سود رہی۔ عشرت العباد حالات اس نہج تک پہنچنے سے قبل وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کریں۔ انکے اندر ایسے رازوں کا سمندر ہے جس کا اگلنا عین قومی مفاد میں ہے۔ بسم اللہ کریں، آج ہی لکھنا شروع کریں ”جو میں نے کیا“۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن