عرفان صادق کی عرفانیاں اور ادبی رسالہ ’’ارژنگ‘‘

معروف شاعر عرفان صادق کے لیے بھرپور تقریب ادبی بیٹھک میں ہوئی۔ اس کی صدارت کا اعزاز مجھے دیا گیا۔ بہت بھرپور تقریب ہوئی۔ پڑھنے لکھنے والے خواتین و حضرات یہاں جمع ہوئے۔ بڑے دنوں کے بعد ادبی بیٹھک پوری طرح سج گئی۔ تخلیقی عرفان و آگہی والے سچے شاعر عرفان صادق کے خوبصورت اشعار آگے چل کر ملاحظہ کریں۔ ایک سرکاری عمارت الحمرا کے اندر ایک بڑے کمرے کو ادبی بیٹھک بنا دینا ایک عجب تخلیقی معرکہ آرائی ہے۔ پاک ٹی ہائوس کے بند ہونے سے ادیب بے گھر ہو گئے تھے۔ جب حمزہ شہباز نے اسے دوبارہ کھولنے کی ہدایات جاری کیں تو یہ دوبارہ ادبی مرکز نہ بن سکا۔ یہاں حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس بڑے جذبے سے ڈاکٹر امجد طفیل ہفتہ وار باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ بہت ادیب شاعر ہوتے ہیں۔
شاعر اور استاد ڈاکٹر ناہید شاہد کے لیے ایک خصوصی تقریب ہوئی۔ مہمان خصوصی ناہید تھے۔ صدر بھی وہی تھے۔ یہ امجد طفیل کی ادبی شرارت تھی یا کوئی ادبی ضرورت تھی کہ تقریب بھرپور ہوئی۔ بیماری کے باوجود ڈاکٹر ناہید شاہد آ گئے اور آخر تک بیٹھے رہے۔ حلقے کی محفل دو تین گھنٹے تو چلتی ہے۔ بہت دوستوں نے باتیں کیں۔ میں نے بھی کچھ عرض کیا۔ ایک اچھا خاصا خوبصورت نوجوان مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ باجی ناہید کہاں ہے؟ میں نے سٹیج کی طرف اشارہ کیا۔ نجانے اس نے امجد طفیل اور ناہید شاہد میں کس کو باجی سمجھا؟
میرا رابطہ ناہید شاہد سے زیادہ نہیں رہا۔ وہ بظاہر سنجیدہ آدمی ہے۔ مگر میں نے ہمیشہ اسے اپنی پسندیدگی میں رکھا۔ پچھلے دنوں بہت دنوں سے اس کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا مگر میں اس کی جدائی میں کبھی مبتلا نہ ہوا۔ یہ اچھا ہوا کہ امجد طفیل نے اس کے ساتھ پروگرام کیا۔ ایسے پروگرام بھی حلقے میں ہونا چاہئیں۔ میں جب بھی امجد طفیل کو دیکھتا ہوں تو مجھے برادرم سراج منیر یاد آتا ہے۔ اب لاہور میں سراج منیر کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ میرے شعری مجموعے ’’پچھلے شہر کی سرگوشیاں‘‘ کا دیباچہ سراج نے لکھا ہے۔ میں نے یہ تحریر کئی دفعہ پڑھی ہے۔
’’تاریخی اعتبار سے تو میرے لیے شاید یہ بتایا مشکل ہو کہ شعر و ادب کے مزاج میں صوفی طرز احساس کی طرف تازہ ترین تبدیلی پہلے آئی تھی یا محمداجمل نیازی کی ذات میں پہلے آئی تھی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس شخص کے اندر تبدیلی ایک عہد آفریں واقعہ ہے۔ یہاں یہ گمان نہ گزرے کہ مجھے ’’عہد آفریں‘‘ کے معنی نہیں آتے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اجمل نیازی نے اتنی کم مدت اور اتنے مختصر کام کی بنیاد پر اپنا ایک تشخص اپنی مخصوص لفظیاتی فضا اور اپنا ایک دائرہ اثر کس طرح پیدا کیا۔‘‘
عہد غفلت میں مجھے مثل سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا
عرفان صادق کے لیے عباس تابش‘ خالد شریف‘ حسین مجروح‘ سعد اختر شاہ‘ نیلما ناہید درانی‘ گلزار بخاری‘ جواز جعفری‘ عفت علوی جسے میرا بیٹا سلمان خان الف سے افت کہتا ہے۔ فراست بخاری‘ ثمینہ سید‘ ممتاز راشد‘ لاہور‘ جاوید آفتاب اور میاں انیس احمد کے علاوہ بھی کچھ دوستوں نے خطاب کیا۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ ان کے نام مجھے یاد نہیں رہے۔ میں اس بڑی زندہ اور بھرپور محفل کا صدر تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ محفل میں بیٹھے ہوئے پچاس سے زیادہ خواتین و حضرات میں سے ہر ایک خطاب کرنا چاہتا تھا۔ عرفان کی تخلیقی حیثیت اور ادبی شخصیت اتنی معروف اور محبوب ہے کہ دیر تک محفل میں کوئی آدمی بھی اٹھ کے باہر نہ گیا۔ بہت خوبصورت کمپیئرنگ ممتاز راشد نے کی۔ عرفان صادق کے چند بہت شاندار اشعار ملاحظہ ہوں۔
جلا کے بیٹھا ہوں جب سے دیے منڈیروں پر
ہر ایک شخص ہوا کی زبان بولتا ہے
اسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں دن بھر حنا تقسیم کرتا ہے
میں سب سے پہلے محفل میں پہنچا۔ ادبی بیٹھک کو تالا لگا ہوا تھا۔ عرفان صادق نے اپنی شاعری سے دلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دیے ہیں۔ جب وہ شاعری سنا رہا تھا تو میں نے کئی تالے کھلنے کی آوازیں اپنے دل کے اندر سنی تھیں۔
امجد طفیل سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق کے لئے الیکشن لڑ رہا تھا تو اس نے مجھ سے ووٹ نہیں مانگا تھا۔ جبکہ میں بھی حلقے کا سیکرٹری رہا ہوں اور شاید میں واحد ادیب شاعر ہوں جو بلامقابلہ سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔ میرے ساتھ جائنٹ سیکرٹری کے لئے برادرم علی اصغر عباس منتخب ہوا تھا۔ میں نے امجد طفیل کی طرف سے نظرانداز کئے جانے کے باوجود ووٹ کا حق استعمال کیا اور اپنا ووٹ امجد طفیل کو دیا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ووٹ کی برکت سے اسے فتح حاصل ہوئی ہے۔
مجھے آج ہی ایک بھرپور ادبی رسالہ ’’ارژنگ‘‘ ملا ہے۔ اس کے مدیر عامر بن علی اور حسن عباسی ہیں۔ دونوں بہت اہم شاعر ہیں۔ عامر کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ جاپان میں ہوتا ہے مگر پاکستان کے بغیر اس کا دل نہیں لگتا۔ وہ جلدی جلدی یہاں آیا رہتا ہے۔ اس کے لئے تقریبات ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صغرا صدف نے اس کی بہت سرپرستی کی ہے۔ ’’چلو اقرار کرتے ہیں‘‘ ’’سرگوشیاں‘‘ اور ’’محبت چھو گئی دل کو‘‘ اس کے شعری مجموعے ہیں۔ ’’گفتگو‘‘ اس کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ہے۔ اس نے ترجمے بھی کئے ہیں جو اس کی کتاب ’’محبت کے دو رنگ‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے کالموں پر مشتمل کتاب کا نام ’’آج کا جاپان‘‘ ہے۔
رسالہ ارژنگ میں حسن عباسی کا ایک شعر بہت اچھا لگا۔ ’’ارژنگ‘‘ کے پہلے ایڈیٹر ابرار ندیم تھے۔
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

ای پیپر دی نیشن