میں اب مشاعرہ بازی کے خلاف ہوں کہ اب لوگ وہاں تفریح کےلئے آتے ہیں۔ ایک میلہ سا لگ جاتا ہے۔ مشاعروں کے ذریعے کئی لوگ تقریباً آدھی دنیا کا چکر لگا آئے ہیں اور خوب پیسے بھی کمائے ہیں۔ وہ چند لوگ ہیں جو پبلک ریلیشنز کے زور پر فائدے اٹھاتے ہیں۔
شیخوپورہ میں ایک مشاعرہ ہوا۔ اس کے لیے چھوٹے شہروں میں بہت اہتمام ہوتا ہے۔ دلچسپی لی جاتی ہے۔ بڑی رونق ہوتی ہے۔ ہرن مینار شیخوپورہ سے کچھ دور ہے مگر یہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ میں حیران ہوا کہ ایک ہرن کی موت پر اتنا افسوس ہوا کہ اس کے لیے ایک مینار بنا دیا گیا۔ اسے ہرن مینار کہا جاتا ہے۔ ہرن مزار نہیں کہا جاتا۔ کئی لوگ یہاں ”فاتحہ“ بھی پڑھ لیتے ہیں۔
مگر یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ بہت کشادگی ہے۔ ویرانی ہے مگر حیرانی جیسی ہے۔ رات پڑ گئی تھی مگر یہاں رات بھی کچھ اور طرح کی تھی۔ یہاں دن کو بھی آنا چاہیے۔ ماحول مسلسل رومانٹک ہو رہا تھا۔ اس میں کچھ شرارت رات کی بھی تھی اور دھند کی بھی۔ ہم نے ہرن مینار کی سیر بھی کی۔ ایک جگہ چھوٹی سی جھیل بھی ہے۔ اتنا خوبصورت اور البیلا پانی میں نے کم کم دیکھا ہو گا۔ کھڑا پانی تھا مگر بہتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ میرا دل یہاں چھلانگ کو چاہ رہا تھا مجھے برادرم رانا عامر محمود نے روک لیا۔ ہم واپس آ گئے مگر یہ پانی وہاں اپنا کام کر رہا ہو گا۔
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھوں کہ اس میں ڈوب جاﺅں
ایک بادشاہ نے اپنی بیوی کی موت پر تاج محل بنا دیا۔ اصل میں یہ مزار ہے۔ اور یہ کسی کو بھی یاد نہیں۔ حیرت ہے کہ منکوحہ محبوبہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہرن مینار بھی ایک شہزادے نے بنوایا تھا۔ جہاں ہرنیوں جیسی عورتی آتی ہیں اور خوشی کا ایک دائرہ بنتا چلا جاتا ہے۔
کتنے ملال کی بات ہے کہ ایسی ساری چیزیں بادشاہوں نے بنائی ہیں۔ کچھ جمہوری بادشاہوں نے بھی بنایا ہوتا؟ جو مسلمان ہیں۔ پھر یہاں بڑی بڑی عمارتیں، سڑکیں اور دوسری چیزیں انگریزوں نے بنائیں۔ ہم نے کچھ نہیں بنایا۔
لاہور میں گورنمنٹ کالج کو دیکھ لیجئے۔ کیا ہم نے ایسا کالج بنایا؟ ہائی کورٹ کی عمارت دیکھ لیں۔ باغ جناح (لارنس گارڈن) کی پوری سیر ایک بار آدمی نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے کئی دن چاہئیں اور شرط یہ بھی ہے کہ کوئی بہت پیارا دوست بھی ساتھ ہو۔ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں ڈی سی ہاﺅس دیکھ لیں۔ اب وہاں پاکستانی ڈی سی رہتے ہیں۔ انگریزوں اور پاکستانیوں میں کتنا فرق ہے۔ چلیں ایک جملہ سن لیں اور فیصلہ خود کریں۔ جن دنوں تاج محل بن رہا تھا یورپ میں آکسفورڈ یونیورسٹی بن رہی تھی۔
اب تھوڑی سی بات مشاعرے کی ہو جائے۔ پہلے جس دوست نے آغاز کیا اس کی کمپیئرنگ تقریب کو ہزار رنگ بنا رہی تھی۔ اس کی گفتگو بڑی شاعرانہ تھی۔ بھاری بھر کم الفاظ کے استعمال سے ایک ایسی فضا بنائی کہ دھند ہمیں اندھا دھند لگنے لگی۔
مشاعرے کے لئے ارشد نسیم نے سٹیج سنبھال لیا اور صرف شاعروں کو بلایا۔ صرف رانا عامر محمود نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت زبردست تاریخی مقامات ہیں وہاں لوگوں کے لئے آسانیاں مہیا کی جائیں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہاں ریسٹ ہاﺅس ہوں، ہوٹل ہوں اور دوسری مراعات ہوں۔ لوگ تفریح کے ساتھ کچھ سیکھیں گے بھی۔ برادرم عبدالستار عاصم نے مجھے کہا کہ وہاں لائبریری ہونا چاہئے۔ اس مقام کے حوالے سے اور دوسری کتابیں ہوں۔
شیخوپورہ کے ایک بہت مخلص آدمی مظفر خان نے اس مشاعرے کے لئے اہتمام کیا تھا۔ کھانے کی میز پر ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لئے محمد شہباز موجود تھے وہ صدر پریس کلب ہیں کئی مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں۔ محمد آصف خان رانا عبدالسمیع بھی مستعد تھے۔ پیرسید خورشید سے میرا تعارف ہے۔ ان کا تعلق شیخوپورہ سے ہے اور وہ رہتے لاہور میں ہیں۔ وہ صدر بار کونسل بھی رہ چکے ہیں رانا عمر محمودکا بھی یہی حال ہے شیخوپورہ سے تعلق ہے اور رہتے لاہور میں ہیں۔
شیخوپورہ سے بھی کچھ شاعر تھے، شاعرات بھی تھیں۔ طاہرہ سرا اور نادرہ خیال دونوں نے اچھا کلام سنایا۔ طاہرہ سرا شیخوپورہ کے ایک گاﺅں صفدرآباد کی رہنے والی ہیں ہمیشہ پنجابی میں لکھتی ہیں بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ ان کی نظم ”اوہدیا ربا“ بہت پسند کی گئی نظم کی کچھ لائنیں
سوہنیا ربا ڈاہڈیا ربا
توں آدم دا بت بنایا
اوہدی پسلی وچوں مڑ کے مینو کڈھیا
مینوں مہنیاں جوگی چھڈیا
پسلی وچوں نکلی اے تے پسلی وانگ ای ٹیڑھی اے
میرے لئی کیہہ تیرے کولوں مٹھ مٹی وی نہیں پجی
سوہنیا ربا ڈاہڈیا ربا اوہدیا ربا
مشاعرے میں مقصود چغتائی پروفیسر اکرم سعید، ارشد نعیم، طاہرہ سرا، نادرہ خیال نے کلام سنایا۔ پروفیسر اشفاق ورک ایک معروف مزاح نگار ہیں مگر انہوں نے بھی اپنا کلام سنایا۔