اسلام آباد(نوائے وقت نیوز)سپریم کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی رہائی کے خلاف نیب اپیل پر لارجر بنچ تشکیل دینے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے پیر کے روز ہونے والی شریف خاندان کی سزا معطلی کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب اپیل پر لارجر بنچ تشکیل دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب اپیل کی سماعت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلاءسے لارجر بنچ تشکیل دینے کے حوالے سے معروضات طلب کی تھیں۔ عدالت نے فریقین کے معروضات کا جائزہ لینے کے بعد مقدمہ لارجر بنچ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کے جاری عدالتی فیصلے میں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانتوں کے حوالے 17 قانونی سوال حکم نامے کا حصہ بنائے گئے ہیں کیا فوجداری ضابطہ کے سیکشن 497 اور 498 کے مقدمے میں زیر غور لایا جا سکتا ہے؟ کیا ضمانت کے مقدمے میں 41 صفحات کا فیصلہ لکھا جا سکتا ہے، سوال اٹھائے گئے ہیں کہ کیا نیب کے مقدمے میں ضمانت عمومی نوعیت کے مقدمات کی طرح ہو سکتی ہے؟ ضمانت کے بعد معطلی کا فیصلہ واپس لینے کے پیرا میٹرز کا اطلاق ہوگا، کیا نیب کے مقدمے میں سزا معطل کرتے ہوئے نا مساعد حالات کو زیر غور لایا جا سکتا ہے، کیا سزا معطلی کے فیصلے میں مقدمے کے شواہد کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہائیکورٹ مرکزی اپیلیں زیر سماعت ہونے کے باوجود سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کر سکتی ہے؟ تحریری فیصلے میں سوال اٹھائے گئے ہیں کہ کیا ہائیکورٹ نے عدالتوں میں طے گائیڈ لائن کو نظرانداز کیا،؟ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں ذیلی شقوں کی درست تشریح کی، نیب مقدمات میں سزا معطلی کے پیرا میٹرز کیا ہیں؟ اس کیس کی سماعت کو 12 دسمبر تک ملتوی کیا گیا ہے۔ اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا ہوگا اور بد اعتمادی کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا، اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا وہ کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میرے ذہن میں تین بنیادی سوال ہیں۔دہشتگردی کا مقدمہ فوجداری کیس ہوتا ہے۔ موجودہ کیس نیب قانون کا تھا۔ اصل سوال ضمانت نہیں سزا معطلی کا ہے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کن حالات میں سزا معطل ہو سکتی ہے۔کیا سزا معطلی میں شواہد کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جائزہ لیں گے کیا ہائی کورٹ نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا ہے؟ اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا وہ کریں گے۔ عدالت نے کہاکہ فریقین کے وکلا کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد لارجر بنچ کا فیصلہ کرینگے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے سوال کیاکہ کیا آپ جسٹس کھوسہ کے فیصلے پر انحصار کر رہے ہیں؟ لیکن اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو جسٹس کھوسہ کو بینچ کا حصہ بنا لیں۔ چیف جسٹس کے سوال پر خواجہ حارث مسکرا دئیے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا ہوگا۔
لارجر بنچ