اس سال تو کئی پاکستانی عید میلاد النبی ، یوم اقبال سے زیادہ کرتار پور رہداری کے جشن میں مشغول رہے۔ میڈیا اور حکومت بھی سب کچھ بھول کر سکھوںکے ہمراہ ان کے مذہبی نعرے ہی لگاتے رہے دوسری جانب سابق وزیر اعظم کی سخت ناساز طبیعت جس کی گواہی چند دن قبل تک موجود ہ حکومت کے وزراء کی اکثریت بھی دے رہے تھے ۔ وزیر اعظم خود بھی میاں نواز شریف کی طبعیت کی بحالی کی دعائیہ پیغامات دیتے رہے ، اچانک یہ تمام افراد اور وزیر صحت پنجاب نے مشترکہ طور پر ناسازی طبیعت کو سیاست سے تعبیر کردیا اور و ہ محکمے جو کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ، قانونی قباحتیںلیکر میدان میںکود پڑے ، شبہاز شریف کی بھی کچھ ’’ پوشیدہ‘‘ کوششیںبھی ناکام نظر آرہی ہیں، ڈاکٹرز کی رپورٹس جوں کہ توں اپنی جگہ موجود ہیں، اس بات سے قطع نظرکہ قانون سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہئے مگر ہما رئے ملک کی جو ریت ہے اسکا کیا جائے کہ بڑا آدمی بڑا ہوتا ہے اسکے لئے قانون دوسرا ہوتا ہے جبکہ کچی آبادی میں رہائش پذیر ’’بھولا ‘‘ کیلئے مختلف۔ تقریبا ایک سال سے مسلم لیگ ن کے لیڈران جیل جارہے ہیں کوئی concrete الزامات بقول عدالتی زبان table نہیںہوئے صرف عدالتوں میں آناجانا ہے جس پر اس غریب عوام کے خون پسینے کے کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے جس کرپشن کا ڈھنڈورہ دنیا بھر میں پیٹ کر متنازعہ کرپٹ لوگوں سے ملک کو زیادہ کرپٹ مشہور کردیا کیونکہ کوئی نواز شریف ، آصف علی زرداری کو انکی اپنی حیثیت میں نہیں بلکہ ’’ پاکستانی ‘‘ کی حیثیت میں جانتا ہے اور بلاواسطہ پورے کے پورے ملک اور اسکے باشندوںکی شہرت و شناخت ایک کرپٹ قوم کی ہوگئی ہے ۔ اب جو پیسہ حکومتی خزانے میں جمع ہوا ہے و ہ صرف چند کروڑ ہے جو بقول حکومت کے ان ’’ کرپٹ‘‘ لوگوںکی رہائی کے وقت نیب ،عدالتوںصرف ضمانت کے طور پر ملا ہے۔ شائد کوئی حل نکل آئے میری تحریر کی اشاعت تک اگر شہباز شریف کو کوششیںرنگ لے آئیں۔ جو بھی فورم ہو وہاںنواز شریف معافی نہیں مانگتے بلکہ شہاز شریف ہی زبانی ضمانتیں دیتے ہیں۔ میاںنواز شریف جو یہ سزائیں بھگت رہے ہیں وہ اپنی سیاست میں ناقابل قبول بیانیہ کی وجہ سے بھگت رہے ہیں ، شہازشریف کی کوشش سے وہ اب تک لند ن اور امریکہ میں اپنا علاج کررہے ہوتے اگر وہ پھر ایک طویل عرصے سے بند زبان کونہ کھولتے۔ لندن جانے کا میاںخاندا ن کو جیسے ہی عندیہ ملا میاںنواز شریف سمجھ بیٹھے کہ کہ سب ٹھیک ہوچکا ہے جبکہ ایسا کچھ نہ تھا وہ شہباز شریف کی ضمانتوں کی آشیر با د سے ہی یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ آزادی کی خوشی اور بیرون ملک جانے کی خوشی میں سابق وزیر اعظم ہدائت دے بیٹھے کہ ’’شہباز شریف ،احسن اقبال،خواجہ آصف کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کے کنٹینر پر مولانا کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی حمائت کا یقین دلائیں ، پھر کیا تھا قانون کی پاسداری والے اس ملک میں سابق وزیر اعظم جن کا نام چند دن پہلے ECL میں نہ تھا ، اچانک ایگزٹ کنٹرول میں نظرآنے لگا ، بیرون ملک روانگی کی فائل نیب، کابینہ ، وزات داخلہ کے درمیان گھومنے لگی ۔وہ تمام وزراء جوکل تک لوگوںکو بتا رہے تھے کہ ہم بہت ’‘ دیالو ‘‘ قسم کے لوگ ہیں انسانی بنیادی پر نواز شریف کی صحت کیلئے پریشان ہیں اچانک انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ عام قیدی کو بھی وہ سہولیات ہونا چاہیں جو نواز شریف یا کسی بڑے آدمی ہیں ، شیخ رشید تو کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نہ کہتا تھا ، میاں صاحب باہر جارہے ہیں آج یو ٹرن لیکر کہہ رہے ہیںڈاکٹرز کی رپورٹس کا کیا بھروسہ ؟ وہ تو بنوائی بھی جاسکتی ہے ۔ قانوں کی پاسداری تو ہمارے ملک کی رگ رگ میں بھری ہے ۔ جج ارشد ملک کا معاملہ غائب، وغیرہ و غیرہ ۔ ہم اپنے ہاں تو کسی معاملے پر یک زبان ہو نہیں سکتے جبکہ وزیر اعظم کی شاندار تقریر ، بیرون ملک مسئلہ کشمیر کو روشناس کرانے کے عمل اب لگتا ہے بیچ راستے میں چھوڑ دیا ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان غور طلب ہے کرتار پور راہداری کے اجتماع میںتقریر کے دوران بھارتی عوام کرتار پور راہداری کھلنے پر بھارت کے عوام ( سکھ ) پاکستان کا شکریہ ادا کررہے ہیں، مودی تم کشمیر سے کرفیو ختم کرکے ہمیں اور کشمیری عوام کو شکریہ کہنے کا موقع دو۔ جبکہ ہماری سفارتی جنگ یا مجاہدین کی جدوجہد صرف کرفیو ہٹانے تک نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی تک ہے ۔ حکومت کے حمایتی اس پروپیگنڈا میں مصروف ہیں کہ مولانا کے دھرنا پروگرام نے کشمیر کے معاملے کو پیچھے کردیا اس لئے اسکی پشت پربھارت ہے ! یہ ایک مضحکہ خیز الزام یا بیان سے زیادہ نہیں کیونکہ جب مولانا کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے اسوقت انہوں نے کشمیر کیلئے کیا تھا جو اب انکے دھرنے سے کشمیر کاز کو نقصان ہورہا ہے ۔ عوامی حمایت ، سیاسی جماعتوںکی حمایت معنی تو رکھتی ہے مگر گزشتہ تین ماہ میں کشمیر پر جس تیزی سے پاکستانی حکومت نے کام کیا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا ، مگر اب اس میں سستی آ رہی ہے ۔ چونکہ حکومت نواز شریف ، اور دھرنوں کو CRUSH مصروف ہے ۔اس ہفتہ تو ہم نے کشمیری مجاہدین کو خوبصورت پیغام دیکر مایوس ہی کیا ہے جس میں بھارتی مزاحیہ اداکار سدھو کی سرحدیں کھولنے کے مطالبے شامل ہیں۔