ضمیر کی قید

گزرتے وقت کے ساتھ ملک میں لمحہ بہ لمحہ کروٹ لیتے سیاسی تغیرات متقاضی تو اس بات کے ہیں کہ اْنہی پر کچھ لکھا جائے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ فوکس اور بہتر صرف اسی وقت اور اْسی صورت ہی لکھ سکتے ہیں جب آپ کا دل، دماغ اور ضمیر ہر قسم کے بوجھ سے آزاد ہوں۔ میرا ایک مسئلہ ہے کہ میں روزِ اوّل سے کسی بھی لمحے کسی بھی طور اپنے آپ کو ضمیر کی قید سے آزاد نہیں کر سکا اور وہ بول دیتا ہوں جو میرے ضمیر پر بوجھ ہوتا ہے لہٰذا آج کے کالم میں آپ سے کچھ باتیں شیئر کر کے میں اپنے ضمیر کا بوجھ کچھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ قارئین آپ نے دیکھا ہو گا آپ میں سے اکثر بشمول میرے بہت سے دوستوں کو ایسی تقریبات میں جانے کا موقع ملتا ہے جن کی شروعات ہم قومی ترانہ سے کرتے ہیں۔ ایسے مواقعوں پر عموماً دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہماری زبان جل جائے اگر اس ترانے کی ادائیگی میں ہمارے اپنے منہ سے کوئی ایک لفظ اس ترانے کا ساتھ دے جبکہ اسکے برعکس اکثر ممالک کی اقوام نہ صرف بلند آواز میں اپنے ملک کا ترانہ پڑھتی نظر آتی ہیں بلکہ کبھی غور کیجئے گا کہ ایسے مواقعوں پر فرطِ جذبات سے انکے باشندوں کی آنکھوں سے آنسو بھی جھلک رہے ہوتے ہیں۔ قارئین آپ مجھ سے سوال نہیں کرینگے کہ یہ بات آج میں آپ سے کیوں کر رہا ہوں۔ اس سوال کے جواب میں جو بات کرنے جا رہا ہوں خْدا راہ اْسے سیاسی نہ لیجئے گا اور نہ ہی میرا مقصد کسی کی ذات کو نیچا دکھانا یا متنازعہ بنانا یا پھر اپنے آپ کو کوئی بہت بڑا محب وطن ثابت کرنا ہے۔ بس یہ ایک خیال تھا جس نے کل اس وقت راقم کے ضمیر کو جھنجھوڑا جب وہ کرتارپور راہداری کے کھلنے کی تقریب میں نجوت سنگھ سِدّھو کی تقریر میں ادا کیے گئے کلمات پر فرطِ جذبات سے عمران خان کے چہرے کی چمک اور اظہار تشکر میں عمران کی آنکھوں میں اْمڈ آئے پانی کو دیکھ رہا تھا کیونکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اکثر قومی لیڈروں کے اس طرح دل کے پاس سینے پر ہاتھ اور آنکھوں میں پانی اس وقت دیکھا ہے جب ان کا قومی ترانہ پڑھا جا رہا ہوتا ہے۔ یقین جانیے نہ جانے اْس وقت میرے دل میں کہاں سے یہ خیال اْمڈ آیا کہ کاش عمران خان اس موقع پر آپکے تھنک ٹینک میں کوئی مجید نظامی جیسا مفکر موجود ہوتا جو تمہیں یہ تجویز کرتا کہ کیونکہ یہ تقریب پاکستان کی دھرتی پر ہو رہی ہے اس لیے اس کا آغاز کسی مخصوص نعرے سے نہیں بلکہ اس دھرتی کے قومی ترانے سے کرو جس میں بیک آواز آپ اور تمام دوسرے پاکستانی بلند آواز اپنا قومی ترانہ پڑھتے تو کچھ بعید نہیں تھا کہ باقی شرکاء تقریب بھی وہ ترانہ پڑھتے اور اگر نہ بھی پڑھتے تو یقیناً تعظیماً احترام میں کھڑے ہو جاتے جس سے ایک طرف 1947ء کی بہت سی حقیقتیں تسلیم کروانے کے سیاسی اور اخلاقی فتح حاصل ہو جاتی تو دوسری طرف ماضی میں وہ جن کے ہاتھ اس دھرتی کی عزتوں کی طرف بڑھے تھے انکے سر اس پرچم اور ترانے کے آگے سرنگوں کروا کر اْنہیں ان کی غلطی کا احساس دلوایا جا سکتا تھا۔ خیر یہ تو راقم کے ضمیر کی آواز تھی جو اس نے اپنے قارئین تک پہنچا دی لیکن اسی تقریب میں عمران خان کی طرف سے ایک ایسی بات بھی ہوئی جس کی اگر دل کھول کر تعریف نہ کی جائے تو وہ بْخل کے زمرے میں شمار ہو گی۔ کہتے ہیں سچ کو سچ کہنا اور لکھنا ہی صحافت ہے اسی لیے اسی لمحے کسی بھی قسم کے بْغض سے آزاد ہو کر یہ لکھنا پڑیگا اور اس بات کا متعرف ہونا پڑیگا کہ اس موقع پر کشمیر اور کشمیری عوام کیلئے عمران خان نے اپنے تیں جس بہتر اور لاجک کے ساتھ آواز بلند کی اس کی جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔ بلاشبہ زندہ قوموں کے لیڈر بلاخوف اور بلا جھجک سچ کی بات کرتے ہیں لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ کیا ہمارا شمار زندہ قوموں میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ تھا وہ دوسرا سوال جو میرے ضمیر پر کل سے مسلسل ہتھوڑے برسا رہا تھا اور شدت کے ساتھ مجھے اس بات کا احساس دلا رہا تھا کہ کیا واقع ہی ہم زندہ قوم ہیں جو صرف گفتار کے غازی ہیں یا بحیثیت قوم ہمارے ضمیر موت کی نیند سو چکے ہیں۔ یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت آیا جب میں اْنہی لمحات میں اپنے الیکٹرانک میڈیا پر سارا دن ہیڈ لائنز میں یا تو کرتارپور یا پھر نواز شریف کی بیماری اور اسکے بیرون ملک روانگی کی خبریں سْنتا اور دیکھتا جبکہ اسکے برعکس ہر بلٹن کے اختتام پر پاکستان کا خواب دکھانے والے علامہ اقبال کے یوم ولادت کے متعلق دو حرفی خبر دیکھتا۔ آج دس نومبر کو جب اس کالم کی میں یہ سطور لکھ رہا ہوں یہاں برطانیہ میں آج انکی مسلح افواج کے وہ سپاہی جو اپنے ملک کیلئے قربان ہو چکے ہیں یا جنہوں نے اپنے ملک کیلئے خدمات انجام دی ہیں انکی خدمات کے اعتراف میں یادگاری دن منایا جا رہا ہے۔ یقین جانئے آج ویسٹ لندن کی سڑکوں پر دیکھنے والا مارچ اور دیکھنے والا ہجوم ہے کہ ایک طرف سابقہ ہیروز کس طرح اپنے سینوں پر میڈلز سجائے کس شان سے گزر رہے ہیں اور دوسری طرف ہجوم کس طرح اپنے ہیروز کی تعظیم میں کھڑا انہیں خراج عقیدت اور تحسین پیش کر رہا ہے۔ وہیں میری فکری سوچیں مجھے بہت ہی گہرے وسوسوں اور خدشات کی وادی میں لے گئی ہیں کہ یہ ففتھ جنریشن وار جس کا اصل ہدف عوام اور اداروں کے درمیان وہ فاصلے پیدا کر دینے ہیں جو کبھی طے ہی نہ ہو سکیں کہیں یہ سب اسی کھیل کا حصہ تو نہیں کہ ہم اپنے اصل کو ہی بھول جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...