کرتار پور میں نوجوت سدھو کی شعروشاعری

Nov 13, 2019

ہے سمے ندی کی باڑ میں سب اکثر بہہ جایا کرتے ہیں
ہے سمے بڑاطوفان پربل پربت بھی جھک جایا کرتے ہیں
اکثر دنیا کے لوگ سمے میں چکر کھایا کرتے ہیں
پرکچھ عمران خان جیسے ہوتے ہیں جو ایتھاس بنایا کرتے ہیں
نوجوت سنگھ سدھو نے ’ماں بولی‘ میں گویا دل ہی کھول کررکھ دیا۔ کرتارپور صاحب راہداری کا افتتاح واقعی دلوں کو جوڑنے کی راہداری کا عملی پیغام ثابت ہوا۔ وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے 14 کروڑ سکھوں کے دل لوٹ لئے ہیں جس کا ثبوت جالندھر اور امرتسر میں لہراتے پاکستان کے پرچم ہیں۔ یہ وہ شکست ہے جو پاکستان نے محبت کے ہتھیاروں سے ظالم موذی مودی کو اسکی سرزمین پر دی ہے۔ پاکستان کے اس محبت اور امن کیلئے خلوص کے پیغام نے موذی مودی کو بھی اپنی تمام نفرت کے باوجود عمران خان کو شکریہ ادا کرنے پر مجبور کردیا۔ نوجوت سنگھ سدھو کا سندیسہ بڑا ہی بامعنی اور دور رس پیغام لئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے کہ دنیا بھر میں آباد 14 کروڑ سکھوں کا یقین ہے کہ عمران خان نے کوئی نفع نقصان یا سودے بازی دیکھ کر کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ یہ قدم اس نے صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے کیا ہے۔ اپنے اشعار کیلئے مشہور سدھو نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ …؎
او کیاملے گامارکے کسی کو جان سے
مارنا ہو تو مارڈالوں احسان سے
دشمن مرنہیں سکتا کبھی نقصان سے
اور سر اٹھا کے چل نہیں سکتا مراہوااحسان سے
سدھو نے کہاکہ سکھ قوم آبادی کے لحاظ سے تو صرف ایک فیصد ہے لیکن اس کا دبدبہ پچاس فیصد ہے۔ یہ جنگجووں، نمبرداروں اور طاقتور لڑاکوں کی قوم ہے۔ عمران خان میری بات یاد رکھنا جو میں آج ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں کہ سکھ قوم آپ کو وہاں لے جائیگی جہاں تک آپ کی سوچ نہیں پہنچ پاتی۔ میری یہ بات لکھ لیں۔ ہم آپکے ترجمان بن کر ساری دنیا میں آپکے ڈنکے بجائیں گی۔ عمران خان کیلئے سدھو نے شعری اظہار یوں کیا کہ …؎
او تیری محبت، تیری مروت، تیرے پیاردے تحفے بدلے
میرے کول تے سب تو مہنگی ایہو شے ہے
میں شکرانہ لے کے آیا ہاں میں شکرانہ لے کے آیا ہاں
مہنگیا یارا سوہنیا خانا دل دیاشہنشاہ خان عمرانا
تیری خاطر دل نذرانہ لے کے آیا ہاں
سدھو کے جذبات الفاظ بن کر امڈتے آرہے تھے اور کرتار پور صاحب کے وسیع عریض کھلے دالان میں سکھ برادری کی تالیاں اس کی تائید کررہی تھیں۔ سدھو کہتا ہے کہ عمران خان نے ’یاری‘ نبھائی ہے۔ دوست وہ ہوتا ہے جب ساری دنیا خلاف ہو تو وہ ’یار‘ کے ساتھ کھڑا ہو اور سچ کی آواز بلند کرے۔ اس نے وہ کرب بھی بیان کیا جو سکھ برادری سرحد پر لگی خاردار تاروں کے باعث تین میل دور بابا نانک کے پاس نہیں آنے پر برداشت کرتی رہی۔ میرا تایا مٹی کو چوم چوم کر رویا کرتا تھا۔اس کالم نگار کے تایا جی عبدالباری خاں پٹیالہ کی تلونڈی ملک کے درشن دیدار کی آس میں دھندلا چکی ہیں بٹوارے اور تقسیم کے دکھ تو سب مہاجروں اور پناہ گیروں کے مشترکہ ہیں تقسیم پنجابیوں پر خاص طور پر قیامت بن کر نازل ہوئی تھی تقسیم برصغیر کے بعد پہلی بار یہ تاریں گری ہیں۔ سکھوں کی چار پشتیں اپنے باپو کے گھر آنے کیلئے ترستی رہیں۔ چودہ کروڑ سکھوں پر یہ احسان عمران خان نے کیا ہے۔ چودہ کروڑ سکھوں کو ’تَاردِتّا‘ یعنی ان کی من مراد پوری کردی، انکی کشتی پار لگادی۔ سکندر نے خوف سے دنیا جیتی، عمران خان وہ سکندر ہے، جس نے دل جیت لئے ہیں۔ ’اَج ٹھوکو تاڑی ٹَکا کے‘ آج زور سے تالی بجاو۔لوگ آج آپکے گیت گاتے ہیں۔ سدھو نے کہاکہ میں نے جب ’’جَپھّی‘‘ ڈالی، تھی، اس کا آج ساری دنیا کو میں نے جواب دینا ہے۔ یہ جواب اس نے شعر کی صورت دیا۔ کہاکہ
جو نفرت دے پجاری نیں
جو نفرت بیوپاری نیں جونفرت کھلاڑی نیں
ایہہ کس مرشد دے چیلے نیں
ایہہ سکھ نیں کہیڑے ست گرودے
ایہہ کس اللہ دے بندے نیں
اوہ میری فطرت محبت ہے میری عادت محبت ہے
میری سیاست محبت ہے
گرونانک دا سکھ آں میں تے شیخ فرید دا چیلا
میری خصلت محبت ہے، میری قدرت محبت ہے،
میرا نانک محبت ہے، میرا رستہ محبت ہے
میرا پینڈا محبت ہے، میرا لانگا محبت ہے
تے میری جپھی وی محبت ہے
سدھو نے شعرانہ اور جذباتی انداز میں کہاکہ ایک ’’جپھّی‘‘ کرتارپور راہداری لاہنگا کھول دے تو دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور سوویں ’’جپھّی‘‘کیا رنگ لاسکتی ہے اور پھر اسی بات کو شعرمیں بیان کردیا کہ …؎
اِک جپھی جے لاہنگا کھولے تے دوجی جپھی پایئے
تیجی،چوتھی،پنجویں،چھیویں ،سویں جپھی پایئے
آئو جپھی جپھی کرکے یارو سب مسئلے سلجھایئے
ایویں کیوں پْت ماواں دے آپاں حداں دے مروایئے
یعنی محبت اور پیار سے معاملات حل کریں، سرحدوں پر ماوں کے بچے کیوں مروائیں۔
…………………… (جاری)

مزیدخبریں