آرمی چیف کا پاکستان ایران تعاون سے علاقائی امن پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا اظہار اور ایران کا مسئلہ کشمیر پر حمایت کا اعلان
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پا کستان اور ایران کے درمیان بہتر اور مزید تعاون کے خطہ کے امن و استحکام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف کے ساتھ جی ایچ کیو میں دوران ملاقات افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور، افغان امن عمل، پاک ایران بارڈر مینجمنٹ، اور سرحدی منڈیوں جیسے موضوعات پر تبادلہ خیالات کیا ۔ ایرانی وزیر خارجہ نے علاقائی استحکام، بطور خاص افغان امن اور مفاہمت کے عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے کام جاری رکھا جائیگا۔انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد ایران کے ساتھ عمومی طور پر تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ اگر کبھی کچھ غلط فہمیوں کے باعث تعلقات میں نشیب و فراز بھی آئے تو دونوں طرف کی قیادتوں کی معاملہ فہمی سے غلط فہمیاں دور کرلی گئیں۔ فریقین کی ایک دوسرے کیلئے کبھی نیت میں کھوٹ نہیں رہا۔ بھارت نے خطے کے ہر ملک کو پاکستان کیخلاف کھڑا کرنے اور استعمال کرنے کی کوشش کی۔ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کی پیشکش کرکے اس نے ایران کو پاکستان سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی۔ ایران اور بھارت کے مابین اس تعاون کو پاکستان نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ بھارت ایران کو جس طرح چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کی آڑ میں پاکستان کیخلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ایران نے بھارت کے خبث باطن کا اندازہ کرکے اسے چاہ بہار منصوبے سے نکال باہر کیا۔ دوسری طرف افغان حکمران ہمیشہ سے بھارت کے ہاتھوں پاکستان کیخلاف استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ افغانستان پاکستان کو موردالزام ٹھہراتا رہا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گرد اسکے ہاں داخل ہوتے ہیں۔ یہ چور مچائے شور کے مترادف ہے۔ پاکستان کے افغانستان سے پاکستان میں مداخلت کے خدشات بجا اور اسکے ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھے جا چکے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے افغانستان سے پاکستان میں آنیوالے راستے بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے دیوار کی تعمیر اور باڑ کی تنصیب سے بند کرنے کی کوشش کی جس کی بھارت کے ایماء پر افغان انتظامیہ نے شدید مخالفت کی۔ ادھر ایران کے بارڈر سے بھی پاکستان میں کبھی کبھی دہشت گرد در آتے تھے۔ پاکستان نے ایران بارڈر پر بھی باڑ لگانے کی بات کی تو ایران نے اس کا خیرمقدم کیا اور نصف اخراجات بھی ادا کررہا ہے۔ یہ فرق ہے کسی بھی ملک کے پڑوسی ملک کیلئے اخلاص اور بدنیتی کا۔
ایران نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ پاکستان نے بھی ایران کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ گلف میں کشیدگی کو کم کرانے کیلئے پاکستان نے ثالثی کی پیشکش کی تو ایران امریکہ اور سعودی عرب نے اسے قبول کیا۔ یہ ایک طرح سے پاکستان کے کردار‘ اخلاص اور غیرجانبداری پر بھی ایران سمیت دیگر ممالک کے اعتماد کا ثبوت ہے۔ کشمیر پر بھارت نے 5؍ اگست 2019ء کو شب خون مارا تو ایران نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔ وزیراعظم نے امت مسلمہ کی مشکلات کی بات کی۔ فلسطین اور کشمیر ایشو کے حل پر زور دیا اور اسلامو فوبیا کی مذمت کی تو ایران پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ 26؍ فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر حملے کی کوشش کی اور بزدلی سے پے لوڈ گرا کر انڈین پائلٹ فرار ہو گئے۔ ایران نے اس موقع پر بھارتی اقدام کی مذمت اور اگلے روز 27؍ فروری کو جب بھارت کے جہاز مار گرائے تو پاکستان کی ایک بار پھر کھل کر حمایت کی۔
اس خطے کے تین بڑے مسائل ہیں۔ فلسطین‘ کشمیر اور افغانستان۔ان تینوں مسائل پر ایران اور پاکستان کا یکساں موقف ہے۔ فلسطین اور افغان مسئلے عالمی قوتیں حل نہیں ہونے دے رہیں۔ ان میں ایک بھارت بھی ہے‘ تیسرا مسئلہ کشمیر خود بھارت نے پیدا کیا اور اسے ظلم و بربریت اور سفاکیت سے طول دیتا چلا جارہا ہے۔
پاکستان کو درپیش مشکلات و مصائب میں ایران کی طرح چین بھی پاکستان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ ادھر ترکی اور ملائشیا بھی پاکستان کے ساتھ مضبوط قدموں سے کھڑے ہیں۔ روس اس خطے کی بڑی طاقت ہے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات میں مدوجزر آتے رہے‘ روس کبھی بھارت کے ہمقدم تھا وہ ہوائوں کا رخ دیکھ کر امریکی کیمپ سے وابستہ ہو گیا۔ روس بھارت کے اس کردار سے برگشتہ ہے جو اسکے پاکستان کی طرف جھکائو کی ایک وجہ بنا۔ امریکہ اور روس کے مابین بدستور کشیدگی برقرار ہے۔ ادھر امریکہ اور بھارت کی قربتیں بڑھیں تو روس ان سے مزید دور اور پاکستان کے قریب آگیا۔ آج پاکستان روس کے مابین دفاعی مشقیں ہو رہی ہیں۔
بھارت امریکہ کے ساتھ روایتی و غیرروایتی ہتھیاروں کے معاہدوں سے بدمست اور اس کا جنگی جنون فزوں ہو رہا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خطہ ایک مضبوط دفاعی بلاک کا متقاضی ہے جس کیلئے حالات سازگار ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں جاری رہیں اور بائیدن نے بھارت کو خطے میں چودھری بنانے کی جنونی پالیسی کو برقرار رکھا تو ایک دفاعی بلاک تشکیل پا سکتا ہے جس میں سردست چین‘ روس‘ پاکستان‘ ایران‘ ترکی اور ملائشیا شامل ہوسکتے ہیں۔ افغانستان میں امن کی بحالی اور ممکنہ ٹرانسفر آف پاور کی صورت میں افغانستان بھی اس بلاک کا حصہ بن سکتا ہے اور آگے چل کر اس خطے کے دیگر ممالک خصوصی طور پر آذربائیجان بھی شامل ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں کسی بھی لمحے عرب ممالک کو بدظن کر سکتی ہیں جس سے یہ بلاک وسیع تر ہو سکتا ہے۔ عالمی برادری انصاف اور غیرجانبداری سے دیرینہ تنازعات طے کرادے تو ایسے بلاک کی ضرورت نہیں رہے گی۔ معروضی حالات میں یہ بلاک تشکیل پذیر ہوتا نظر آرہا ہے۔