ہمارے ذرائع ابلاغ

دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ان’’منہ بولے عوامی رہنما ئوں‘‘ کو بارش کے دوران بجلی کا کرنٹ لگنے سے مرنے والے شہریوں کی کوئی پروا نہیں، انہیں ’’بے ڈھکنی مین ہولز‘‘پر مبنی سیوریج کے ’’بدکار‘‘ نظام کی اصلاح کا خیال نہیں آتا۔ ہاں وہ کتے بلیوں اور دیگرجانوروں کوڈینگی اور ملیریا سے محفوظ رکھنے کیلئے 9کروڑ کروپے کا بندوبست ضرور کرتے ہیں،انکی ’’فلاح و بہود‘‘ کیلئے مزید 57کروڑ روپے بھی مختص کرتے ہیں اور اس طرح گویا وہ عوام کو یہ باور کرا تے ہیں کہ انکی نظروں میں انسانوں سے زیادہ ان ’’غیر انسانی زندگیوں‘‘ کی اہمیت ہے۔ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رہنمائوں نے عوام کے کسی مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر اسے حل کرنے کی جدوجہدیا احتجاج کرنے پر غور نہیں کیا البتہ اپنے ذاتی مسئلوں کو عوامی مسئلہ قرار دیکر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی جدوجہد ضرور کی۔رہ گئے ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلزتو انہوںنے بھی عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا۔ انہیں صرف اپنی ریٹنگ کی فکر کھائے جاتی ہے۔ 
سچ پوچھیں تو یہ چینلزعوامی خواہشات کے عکاس ہرگز نہیں البتہ عوام ان چینلز کی خواہشات کی عکاسی ضرور کرتے ہیں۔ 
میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ حکمرانوں کے تابع نہیں بلکہ حکمران ذرائع ابلاغ کے مرہون منت ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میڈیا چاہے تو کسی بھی معروف شخصیت کی شادی کی اطلاع نہ صرف’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر نشر کرتا ہے بلکہ یہ انکشاف بھی کرگزرتا ہے کہ دلہن کے پیر جس جوتے میں اترے ہیں اسکی پنسل نما ہیل کی اونچائی 3انچ ہے جبکہ دلہن کی قامت 5فٹ 4انچ ہے۔ یوں اس عروس کی کل طوالت 5فٹ 7انچ ہو چکی ہے جبکہ دولہا میاں کی جوتوں سمیت کل اونچائی 5فٹ 11انچ ہے۔ ۔اسی دوران ٹی وی سے ’’شنگ ‘‘ کی آواز آتی ہے اور اسکرین پر بریکنگ نیوزکا کواڑ کھلتا ہے جس پر لکھی تحریر نیوز اینکر پڑھ کر سناتا ہے کہ ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ دلہن کے جوتوں کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ برانڈڈ ہیں اور ان کی قیمت 15لاکھ روپے ہے جبکہ عروسی کلائی میں بندھی گھڑی کی مالیت صرف پونے دو کروڑ ہے۔خبر یہ بھی موصول ہوئی ہے کہ دولہا والوں نے کسی قسم کا جہیز لینے سے انکار کر دیا ہے تاہم کہا ہے کہ دلہن والے اپنی خوشی اورمرضی سے بیٹی کو کچھ دینا چاہیں تو ہم منع نہیں کرینگے چنانچہ دلہن والوں نے دولہا کو تحفتاً 10کروڑ روپے نقد دے دیئے ہیں۔
لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو کس قسم کے اور کتنے پکوان پیش کئے جائینگے، اسکی تفصیل ہم آپ کو چند ہی لمحوں میں فراہم کر دینگے۔یوں ایک جانب میڈیا کی باخبری کا یہ عالم کہ وہ جوتے کی ہیل کی اونچائی بیان کر رہا ہے اور دوسری جانب ایسی بے خبری کہ ماڈل ٹائون میں بے گناہوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی وڈیوز نشرکیں اور پھر سارے معاملے کو یوں فراموش کر دیا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ٹی وی اسٹیشن پر دوران احتجاج حملہ ہویا سپریم کورٹ پر حملہ ہو ، یا ننھے بچوں اور بچیوں کے ساتھ درندہ صفت لوگو ں کی زیادتی کی بریکنگ نیوز مگر دوسرے دن خبر یا تٖفصیل نادارد۔ میڈیاخود مادر پدر ہے مگر اس نے عوام کی نفسیات سے کھلواڑ کر کے انہیں اپناغلام بنا رکھا ہے۔ وہ جس انداز میں چاہتا ہے ہماری ذہن سازی کرتا ہے۔اسی لئے کوئی لاکھ کرے ہیر پھیر مگر جب میڈیا اسی کیلئے کہتا ہے کہ ’’اک واری فیر‘‘ توہم اسی کو ووٹ دے کر آجاتے ہیں۔مختلف چینلز کے مارننگ شوزمیںخواتین کو اُکسایاگیا کہ اگر آپ کا شوہر آپکے معیار پر پورا نہیں اُتر رہا تو آپ کسی تاخیر کے بغیر اس سے خلع لے لیں۔
 یہ سن کران گنت غیر معروف اور ’’گنت‘‘ معروف خواتین نے شوہروں سے علیحدگی اختیار کر لی جن میںبعض اینکرز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت سب سے بہتر نظام ہے، ہم نے مان کیا۔ ابلاغ نے کہا کہ عوام جمہوریت کے تحفظ کیلئے قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، یہ سن کر ان گنت انسانوں نے قربانی دی اور پسماندگان نے انہیں ’’شہیدِ جمہوریت‘‘ کے خود ساختہ اور غیر یقینی اعزازکا حامل قرار دے دیا۔ ان نابالغ عالموں کو کون سمجھائے کہ شہادت کا رتبہ اسی کو ملتا ہے جسے اللہ کریم عطافرمانا چاہے۔ اسکا حقدار کون ہوگا یہ اللہ ہی جانتا ہے ۔ واہ واہ میڈیا !!  … (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن