جوزف آر بائیڈن ایک تاریخ ساز سیاسی معرکے اور بیشمار اُلجھنوں کے بعد امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہو گئے۔ آپ ایک باہمت، پُرعزم، بہترین منصوبہ ساز اور ناکامیوں سے نہ گھبرانے والی شخصیت ہیں۔ جو 1972ء میں اپنی بیوی اور بیٹی کو کھونے کے بعد اپنے ہواس کھو بیٹھے۔ پھر ہمت سے کام لیا لیکن ایک بار پھر دھچکا لگا جب اُن کا جواں سال بیٹا کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا۔ ان تمام مایوسیوں اور پے در پے غموںنے وقتی طور پر اُنہیں جھنجھوڑ دیا۔ دو دفعہ صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں ناکام رہے اور بالآخر پُرعزم اور جہدِ مسلسل پر یقین رکھنے والی شخصیت صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہوئی اور پھر شیر کی کچھار سے اپنی کامیابی کو کھینچ لائے۔ دنیا کی طاقتور ترین قوم کا صدر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ امید ہے پاکستان کی تاریخی خدمات کا احساس کرتے ہوئے اُسکی قدر و منزلت اور اُسکی قربانیوں کے پیش نظر جن میں مالی، مادی اور انسانی نقصانات ہیں کو وزن دیا جائیگا اور پاکستانی جذباتی قوم امریکہ کے ایک اشارے پر بغیر نقصانات کا اندازہ کئے آتش نمرود میں کود جاتی ہے۔ وہ چاہے لیاقت علی خان کی اسٹالن کی دورہ روس کی دعوت کو رَد کرنا ہو، روسی ریچھ سے خوف کھائے بغیر U2 طیارہ اُڑوانے اور روس کی طرف سے مار گرائے جانے کے بعد کے ردِعمل کے طور پر UNO میں جوتا کھڑکانے والے روسی صدر خروشیف نے دھمکی دی کہ جہاں سے U2 طیارہ اُڑا ہے اُس ملک کو ہم سبق سکھا دیں گے اور آپ کی تھپکی پر ہی اُس کا جواب ایوب خاں نے دیا کہ اگر پاکستان کے کسی شہر پر حملہ ہوا تو آپ کے ہر شہر کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دینگے۔ اس دھمکی کا بھی وہی اثر ہوا جو کیوبا میں لیجائے جانیوالے میزائلوں کے جہازوں کی صدر کینیڈی کی دھمکی کے بعد راستے میں سے فوری واپسی کا تھا۔ دنیا کی دوسری سپر پاور جس کو ختم کرنے کیلئے امریکہ نے کھربوں ڈالر کا بجٹ رکھا تھا۔ پاکستانی مجاہدوں اور بہادر فوج نے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔70 ارب ڈالر کے قریب اپنا مالی نقصان کیا اور ہزاروں جانیں شہادت کا رُتبہ پاگئیں۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ کبھی تو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان کو ریڈ کارپٹ استقبالیے دئیے گئے اور نائن الیون (9/11) کے بعد اپنے تیار کئے گئے طالبان کا ملبہ پاکستان پر پھینک دیا۔ یہ ہوتا ہے تاریخی حقائق کو مسخ کرنا۔ ہندوستان کو علاقے کا چوہدری بنانے کی کوشش کی گئی جس نے پاکستانی سرحد کے قریب درجنوں دہشت گردی کے کیمپ لگائے۔ باغی گروہوں کی مالی اعانت کی اور پاکستان میں تخریب کاری کا بازار گرم کردیا۔جوبائیڈن صاحب ہم نے آپ کا ساتھ دیا۔ اسٹالن کی دعوت سے انکار کیا اور آپکی ہاں میں ہاں ملائی۔ بالمقابل روس نے ہندوستان میں اسلحہ کی بھرمار کر دی اور صنعتی فیکٹریاں لگائیں۔ آپ نے ہمیں PL480 اور سرکا راما پر ٹرخا دیا۔ روس نے کشمیر پر ویٹو کیا۔ آپ جتنی مرضی ہندوستان میں سرمایہ کاری کرلیں لیکن اُنکی چانکیہ سیاست میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ روسی، امریکی اور ولایتی گائیوں کا دودھ پینے کے علاوہ ان کا گوبر کھاتے ہیں اور پیشاب پیتے ہیں۔ جب بھی کام آئیگا پاکستان ہی آئیگا۔ آپ لوگ اُسے کاروباری نکتہ نظر اور آبادی پر تولتے ہیں۔ لیکن آپ صفرے جمع کر رہے ہیں۔ اب ذرا انسانی سانحے کی طرف بھی نظر ڈالیں۔ انسانیت کی تذلیل دیکھیں کہ مقبوضہ کشمیرکے ایک کروڑ انسانوں کو ایک سال سے گھروں میں نظربند کیا ہوا ہے۔ نہ دوائی، نہ ہسپتال، نہ راشن، نوجوان جیلوں میں اذیت ناک تشدد سے گل سڑ رہے ہیں۔ کشمیریوں کا سرعام قتل اور عورتوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے۔ جناب صدر! پاکستانی لوگ انتہائی کھرے، بیوقوفی کی حد تک دلیر اور وفادار دوست ہیں۔ یہ دوستی میں دوستوں کی مونچھ نیچے نہیں ہونے دیتے۔ چوائس آپ کی ہے کہ اس کندن کی کان کا فائدہ اٹھائیں یا کوڑے کے ڈھیر کو گلے لگائیں۔افغانستان میں پاکستان کے کردار کی آج بھی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کی ہے اور پاکستان ایک اچھے اور مخلص دوست کا کردار ادا کر رہا ہے بلکہ بار بار آپ کو اس بات کا احساس دلانے کی ناکام کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔
جناب صدر! آپ نے اپنی کامیابی سے جیرالڈ فورڈ، جمی کارٹر، جارج بش سینئر کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ایک تحفہ بھیج دیا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ہمیں باراک اوباما جیسا دوست سمجھتے ہیں یا ہندوستان کے دوست ٹرمپ جیسا۔
آخر میں ایک مشورہ ہے کہ ٹرمپ اور اس کی پارٹی کے منفی ہتھکنڈوں سے آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔