آئینی دائرے میں رہ کر فوج میرا ادارہ، بات ہو سکتی، حکومت کو گھر بھیجا جائے، مریم نواز: بیانئیے کا فراڈ سامنے آ گیا، حکومتی رہنما

گلگت (بی بی سی، نوائے وقت رپورٹ) مریم نواز نے کہا ہے کہ ان کی جماعت فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہے اور اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بات چیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ انٹرویو میں مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کے قریبی ساتھیوں سے بات چیت کے لیے رابطے کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے میرے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے رابطے کیے ہیں مگر میرے ساتھ براہ راست کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ فوج میرا ادارہ ہے، ہم ضرور بات کریں گے، لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔ وہ بات اب عوام کے سامنے ہو گی، چھپ چھپا کر نہیں ہو گی۔ میں ادارے کے مخالف نہیں ہوں مگر سمجھتی ہوں کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ مریم نواز شریف نے کہا کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر سکتی ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حکومت کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ڈائیلاگ تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہو گا، اور ہو رہا ہے، اور اتنا اچھا ہو رہا ہے کہ جعلی حکومت گھبرائی ہوئی ہے۔ اور اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے ردعمل دینا ہے اور گھبراہٹ میں وہ اس قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر عوام ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی سیاست بند گلی کی جانب نہیں جا رہی۔ گوجرانوالہ ہے، کراچی ہے، کوئٹہ ہے یا گلگت بلتستان ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے اور وہ ہے ووٹ کو عزت دو۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ایک اپنا مؤقف ہے، مسلم لیگ (ن) کا اپنا موقف ہے جو میاں صاحب نے واضح کر دیا ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی یا مائنس عمران خان فارمولے کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان دیکھا جائے گا میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گی لیکن جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ اس حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے۔ اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہو گا اور نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔ پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ کھلا رکھنے پر بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ میری نظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ اس لیے نہیں ہیں کیونکہ میں انہیں سیاسی لوگ نہیں سمجھتی۔ تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انہیں معافی دینے کے مترادف ہو گا جو میری نظر میں جائز بات نہیں ہے۔ میری نظر میں اب ان کے احتساب کا وقت ہے، ان کے ساتھ الحاق کا وقت نہیں ہے۔ یہ ان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا وقت نہیں‘ اب جب کہ وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ تاہم باقی جماعتوں کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے قانون سازی میں مسلم لیگ حکومت کا ساتھ دے گی۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ جس طرح انہوں نے نواز شریف کے دیگر منصوبوں پر اپنی تختی چپکا دی ہے وہ کوشش انہوں نے یہاں بھی کی ہے لیکن لوگ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ کس کا تھا۔ مجھے امید ہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام مسلم لیگ ن اور شیر پر اعتماد کریں گے تو یہ صوبہ بھی مسلم لیگ (ن) بنائے گی بلکہ اس کے ساتھ جو آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے، یعنی این ایف سی ایوارڈ کے تحت اس کے شیئر دینا، وہ بھی ن لیگ دیکھے گی۔ یہ معاملہ یہ پارلیمان میں نہیں لائیں گے، یہ کام بھی ن لیگ کرے گی کیونکہ یہ صرف ان کا انتخابی وعدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں بہتر نہیں ہو سکتی، یہ حال ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے ووٹ چوری کریں۔ جیل میںمیرے کمرے اور باتھ روم میں کیمرے لگائے گئے تھے۔ جیل میں اپنے ساتھ یعنی ایک خاتون کے ساتھ ہونے والا سلوک بتا دیا تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔آج یہ نہیں بتاؤں گی، جب میں جدوجہد کررہی ہوں تو بالکل اس چیز کے پیچھے چھپنا نہیں چاہتی، اپنے آپ کو متاثرہ ظاہر کرنا نہیں چاہتی، آج یہ رونا نہیں رونا چاہتی کہ میرے ساتھ زیادتی ہوگئی۔ اگر مریم نواز کا دورازہ توڑ کر کمرے میں گھس سکتے ہیں، اس کے والد کے سامنے حق بات کرنے پر گرفتار کرسکتے ہیں، اگر اس کے کمرے اور باتھ روم میں کیمرے لگا سکتے ہیں اور ذاتی حملے کراسکتے ہیں تو پاکستان کی کوئی عورت محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عورت چاہے پاکستان میں ہو یا دنیا میں ہو وہ کمزور نہیں ہوسکتی۔ مریم نواز گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کے بعد اسلام آباد پہنچ گئیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں نے مریم نواز کا استقبال کیا۔ کارکنوں نے نوازشریف اور مریم نواز کے حق میں نعرے لگائے اور گل پاشی بھی کی۔ مریم نواز نے کہا کہ الیکشن مہم بہت ٹف تھی۔ 15,15 گھنٹے بھی کام کرنا پڑا۔
اسلام آباد (وقائع نگار، نوائے وقت رپورٹ، ایجنسیاں) مریم نواز کے بی بی سی کو انٹرویو پر ردعمل میں وفاقی وزیر سائنس فواد چودھری نے کہا ہے کہ مجھے پی ڈی ایم کا بیانیہ سمجھ  نہیں آتا کیا ہے؟ وہ فوج سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ حکومت سے بات کرنا نہیں چاہتے۔ پی ڈی ایم کے مؤقف  سے پتہ چلتا ہے ان تلوں میں تیل نہیں۔ سیدھا سادھا کہیں کہ کیسز میں ریلیف چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر مریم کہہ رہی ہیں کہ خدا کیلئے کیسز سے جان چھڑائیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ ان کی پارٹی کے اندر سے بھی آواز اٹھے گی۔ بیانیے کو  صرف نیب کیسز والوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ پہلے کہتے  ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے پھر اسی فوج سے کہتے ہیں کہ حکومت کو ہٹاؤ ہمیں کرسی پر بٹھائو۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں سے رابطے میں رہتی ہے۔ نواز شریف کے بیانیے کی قیمت انہیں ادا کرنی پڑے گی۔ میں اپنے تجربے سے کہتا ہوں کہ فوج میں زیرو فیصد بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت نہیں ہے۔ مریم نواز کا بیان غیرذمہ دارانہ ہے۔ وہ فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہیں۔  ان ہائوس تبدیلی اپوزیشن کا حق ہے۔ آزما کر دیکھ لیں شکست ان کا مقدر بنے گی۔ وزیراعظم کے  مشیر برائے احتساب داخلہ شہزاد اکبر نے کہاہے کہ بلاول اور مریم نواز کے مابین چوہے بلی کا کھیل جاری ہے ، یہ بچے فی الحال آپس میں ہی کھیلتے رہیں گے ، عمران خان تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا جو لوگ حکومت میں رہے اور عوام کا مال کھایا انہیں جواب دینا ہوگا۔ جہانگیر ترین کا واپس آنا کسی ڈیل کا حصہ نہیں۔ حکومت بلاامتیاز کارروائی پر یقین رکھتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عوام میں بحث کی جاتی رہی۔ شوگر انکوائری کمیشن کو کئی عدالتوں میں چیلنج کیا گیا لیکن ہائیکورٹ نے سات صفحات پر مشتمل فیصلے میں ایف آئی اے کی دستاویز کو من وعن تسلیم کیا گیا۔ بدعنوانی کرنے والے  لوگوں کے خلاف مقدمات کا ٹرائل شروع ہوگیا ہے۔ جس نے بھی بدعنوانی کی وہ پکڑے جا رہے ہیں۔ ان کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے  ، آنے والے دنوں میں مزید چیخیں سنائی دیں گی۔ نیب کی کارکردگی تبدیل ہوچکی ہے۔ کرپٹ عناصر اب نہیں بچیں گے۔ جعلی اکائونٹس ایف آئی اے کی روشنی میں سامنے آئے۔ اداروں میں سیاسی مداخلت نہ ہو تو وہ آزاد کام کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی ڈیمانڈ ہے کہ فوج سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ ایک طرف ان کا بیانیہ دیکھیں دوسری طرف بیان میں بھی تضاد ہے۔ ایک طرف واضح کریں (ن) لیگ کا اصل بیانیہ ہے کہ کسی طرح اقتدار مل جائے۔ ایک طرف کہتے ہیں اداروں کے خلاف نہیں دوسری طرف بیان داغ دیتے ہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی اب علاقائی جماعتیں ہیں۔  (ن)لیگ کے بیانیے کا فراڈ کھل کر سامنے آ گیا ہے، ان کا اصل بیانیہ این آر او اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنا ہے۔ معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کھچی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ن لیگ کی سابقہ حکومت صرف ایسے منصوبوں پر کام کرتی تھی جس سے بڑے کک بیکس مل سکیں۔ کیلبری کوئین اپنے جھوٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ سے سند یافتہ ہیں۔ وہ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں لیکن اپنی اہمیت بنانے کیلئے بڑے بڑے بیانات دیتی ہیں۔ ن لیگ کے ریاستی اداروں کے خلاف بیانیے کو عوام نے بری طرح ریجیکٹ کردیا ہے اس لیے اب مریم بی بی فیس سیونگ کی کوشش میں ہیں۔ وہ عدالت سے بری نہیں ہوئیں اس لیے اپنا مقدمہ عدالت میں لڑیں اور مفرور والد کو واپس بلائیں۔ آپ سیاست کریں لیکن ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگلنا بند کریں۔ یہ نہیں چلے گا کہ آپ حکمرانی پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں لیکن عیاشی بیرون ملک۔ 35سالوں میں آپ نے عوام کو اس قدر لوٹا لیکن صحت کے شعبے میں اتنا بھی کام نہیں کیا کہ اپنا ہی علاج پاکستان میں کروا سکتے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ چلو یہ تو اچھا ہوا کہ جمہوریت کا جو جعلی لبادہ اوڑھا تھا وہ اتر گیا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دفن ہوا اور اقتدار کی ہوس کھل کر سامنے آگئی۔ آپ کو کب سے سمجھا رہے ہیں نہ ان کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہ عوام سے یہ چوری کی دولت بچانے کی جنگ ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ پہلے فوج منتخب حکومت کو گھر بھیجے پھر ہم سے بات کرے پھر ہمیں حکومت دے اس کے بعد فوج اپنا کردار اگلے پانچ سال کیلئے ختم کردے۔ اداروں کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ سن لو کان کھول کے ابھی ٹھیک ہوگیا۔ شہباز گل نے کہا ہے کہ مریم صفدر ایک مجرمہ ہیں، ان سے بات کرنے کو کوئی تیار نہیں، ان کے والد کو اسٹیبلشمنٹ یہاں تک لائی۔ مریم صفدر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولتیں، یہ سرٹیفائیڈ جھوٹی ہیں، ان کے منہ سے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں نکلتا، ان کو رسیدیں دینی پڑیں گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...