"Pakistan Bangladesh Brotherhood!"(1)

Nov 13, 2020

اثر چوہان

معزز قارئین ! تازہ ترین خبروں کے مطابق تقریباً ’’ دو سو سال بعد یونان کے شہر ایتھنز (Athens) عثمانی ترکوں کی ’’ مسجد فتحیہ ‘‘ (Fethiye Mosque) نمازِ جمعہ (Friday Prayers) کے لئے کھول دِی گئی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ’’ پاکستان، مصر ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہزاروں مسلمان ایتھنز میں آباد ہیں۔ تحریک پاکستان کے کارکن میرے دوست ’’ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (مرحوم) کے فرزند ( چیئرمین پیمرا ) عزیزم پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے مجھے ٹیلی فون پر مبارک باد دِی اور کہا کہ ’’ اب تو آپ کو ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامیؒ کی یادگار "Pakistan Bangladesh Brotherhood"کو دُنیا کے مختلف شہروں کی طرح ایتھنز میں بھی اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کے ساتھ ایک ہی صف یا کئی صفوں میں کم از کم نمازِ جمعہ پڑھنے کا موقع ملے گا !‘‘۔
بیگ صاحب نے کہا کہ ’’ مجھے یاد ہے ’’ دسمبر 1991ء میں آپ "Senegal" کے شہر "Dakar" میں ’ ’ اسلامی سربراہی کانفرنس‘‘ میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی ’’ میڈیا ٹیم ‘‘ کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ گئے اور اُس سے پہلے آپ سب لوگ ایک رات اور ایک دِن ایتھنز میں بھی ٹھہرے تھے ۔ ایتھنز کے بارے میں آپ نے ایک کالم بھی لکھا تھا؟ ‘‘۔مَیں نے کہا کہ ’’ عزیز من !  پہلے مَیں پاکستان کے دولخت ہونے کی بات کر لوں ،پھر ’’ فاتح سلہٹ‘‘ جناب محمود علی صاحب کی ’’ تحریک تکمیل پاکستان ‘‘ اور پھر جناب مجید نظامی کی "Chairmanship" میں "Pakistan Bangladesh Brotherhood" کی جدوجہد کی داستان اور پھر ہر علم میں شہرۂ آفاق سُقراط کے ایتھنز کا۔ 
معزز قارئین !۔ مشرقی پاکستان کو ’’ بنگلہ دیش ‘‘ بنانے والے تین کردار  بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی ، بنگلہ دیش کے سربراہ شیخ مجیب اُلرحمن اور ’’ نیا پاکستان ‘‘ کے سربراہ، ذوالفقار علی بھٹو ، تینوں غیر فطری موت کا شکار ہُوئے ۔ اُن کی بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور دونوں بیٹے میر شاہ نواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو بھی ۔ پاکستان کے دو لخت ہونے اور بنگلہ دیش بنانے پر جنابِ مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ ’’ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار فوجی جرنیل اور سیاستدان ہیں ، اب فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ ’’ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد کرنے میں کردار ادا کریں !‘‘۔ 
’’سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے !‘‘
معزز قارئین ! سقوطِ ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہُوئے 49 سال ہوگئے۔ مَیں نے جنوری 1970ء میں ، تیسری بار مصطفی صادق صاحب ( مرحوم) اور برادرِ عزیز و محترم جمیل اطہر قاضی کا روزنامہ ’’وفاق ‘‘ لاہور جوائن کِیا۔ اُنہوں نے مجھے ’’ مرکزی جمعیت عُلماء اسلام ‘‘کے قائد مولانا احتشام اُلحق تھانوی ؒ  کا دورۂ مشرقی پاکستان "Cover" کرنے پر مامور کِیا تھا۔ اُن دِنوں لاہور سے ڈھاکہ کا "Return Air Ticket"پانچ سو روپے میں مل جاتا تھا۔
مَیں نے ڈھاکہ ، کرمیلا، نواکھلی، چٹا گانگ اور کئی دوسرے شہروں میں مولانا صاحب کے جلسوں کی "Coverage" کے علاوہ مسلم لیگی لیڈر جناب نور اُلامین، مفتی اعظم مولانا محمد شفیع ، سیکرٹری نظام اسلام پارٹی مولوی فرید احمد ، امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی ، امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان مولانا غلام اعظم خان اور کئی دوسرے لیڈروں سے انٹرویو کِیا۔ مجھے روزنامہ ’’ امروز ‘‘ لاہور کے دو دوستوں برادران شفقت تنویر مرزا (مرحوم) اور کافی عرصہ سے واشنگٹن مقیم سیّد اکمل علیمی نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کچھ پروفیسروں اور بائیں بازو کے دانشوروں کے نام خطوط بھی دئیے تھے جنہوں نے مجھے "Tangail" میں ’’ نیشنل عوامی پارٹی ‘‘ (چین نواز کے سربراہ ) مولانا عبدالحمید خان بھاشانی سے ملوایا، پھر مولانا نے مجھ سے جپھّی ڈال لی تھی۔ 
8 جنوری 1970ء کو مولانا مودودی صاحب نے  ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا جسے شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ کے دہشت گردوں نے تباہ کردِیا تھا ۔ مغربی پاکستان میں آباد میرے ایک دوست بہاری صحافی بدر منیر ؔ نے میری جان بچا لی تھی۔  شیخ مجیب اُلرحمن کی مقبولیت کی اصل وجہ غریبوں کے لئے ہمدردی کا "Slogan" تھا ‘‘ ۔مَیں نے بہت سی مجلسوں میں سُنا تھا کہ ’’ مشرقی پاکستان میں مرغی مہنگی اور عورت سستی ہے ‘‘۔ 
’’جنابِ محمود علی سے ملاقات !‘‘ 
معزز قارئین ! 18دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہُوا تو ’ ’ فاتح سلہٹ ‘‘ جناب محمود علی نے مشرقی پاکستان میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ’’ بچے کھچے پاکستان ‘‘ کو اپنا وطن بنا لِیا ، وہ تا حیات وفاقی وزیر رہے ۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دَور (1976ء میں ) میرے ایک لہوری ؔ دوست ، انفارمیشن گروپ کے سینئر آفیسر برادرم ایف  ڈی مسعود نے میری محمود علی صاحب سے پہلی ملاقات کرائی تھی، پھر ملاقاتیں بڑھتی گئیں ۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دَور میں محمود علی صاحب جب بھی لاہور آتے تو میرے ( رونامہ ’’ سیاست‘‘ ) کے دفتر ، ضرور تشریف لاتے ۔ اکتوبر 1985ء میں ’’پاکستان اور بنگلہ دیش ‘‘ کو اکٹھا کرنے کے لئے تحریک پاکستان کے کئی نامور کارکنوں نے محمود علی صاحب کی صدارت میں ’’ تحریک تکمیل پاکستان ‘‘ قائم کی تو محمود علی صاحب اُس کے چیئرمین تھے اور تحریک پاکستان کے ایک اور کارکن سیّد ظہور عالم شہید سیکرٹری جنرل۔ 1988ء میں شہید صاحب کا انتقال ہوگیا تو 1977ء سے میرے دوست سیّد شاہد رشید اُن کی جگہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے تھے، تو میرا محمود علی صاحب سے مسلسل رابطہ ہوگیا ۔ خاص طور پر جب مَیں نے 1987ء میں اپنا ایک گھر اسلام آباد منتقل کر لِیا تھا ! ۔  (جاری)
(جاری ہے )  

مزیدخبریں