مہنگائی ، روٹی، بھوک ، بابا فرید شکر گنج، بابابلھے شاہؒ

معزز قارئین ! یہ بہت پرانی بات ہے کہ ’’ جب ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں 30 نومبر 1967ء کو ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم ہُوئی اور غریبوں کیلئے اُس کا سب سے بڑا نعرہ ’’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ کا تھا لیکن ، حقیقت یہی ہے کہ ’’ سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدرِ پاکستان  وزیراعظم پاکستان بھٹواور پھر دو بار منتخب وزیراعظم اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اور ایک بار ’’ دامادِ بھٹو ‘‘ صدر آصف زرداری کے دَور میں اسلام آباد کے ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہائوس کی طرف دیکھتے ہُوئے بھوکے ، ننگے عوام یہی نعرہ لگاتے رہے کہ …
’’ روٹی، کپڑا، بھی دے، مکان بھی دے!
اور ہمیں ، جان کی امان بھی دے ! 
…O…
20 دسمبر1971ء کو جنابِ بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اُنہوں نے ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ ( مغربی پاکستان ) کو’’ نیا پاکستان‘‘ قرار دِیا ۔ 18 اگست 2018ء کو جنابِ عمران احمد خان نیازی وزیراعظم پاکستان منتخب ہُوئے تو اُنہوں نے بھی موجودہ پاکستان کو ’’ نیا پاکستان ‘‘ قرار دِیا۔ خان صاحب کے دَور میں بھی غریب غُرباء مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں ۔ وزیراعظم ، وزیر خزانہ اور حکمران جماعت کے سبھی ’’ بڑے لوگ ‘‘ مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے رہے ہیں اور حزبِ اختلاف کی سبھی جماعتیں حکمرانوںکو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ … 
’’اپنے سر الزام سارے دھر چلے!
''ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے!‘‘
…O…
’’ مادرِ ملّتؒ سے ملاقات ! ‘‘ 
مَیں اکثر اپنے دو دوستوں ، تحریک پاکستان کے کارکنوں ، لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (موجودہ چیئرمین پیمرا ، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد مرحوم ) اور اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم طور (اردو پنجابی کے نامور شاعر اور روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن ، سعید آسیؔ صاحب کے والد مرحوم ) کا تذکرہ کرتا ہُوں ۔ 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب تھا ۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ امیدوار تھیں ۔ انتخاب سے کچھ دِن پہلے مَیں اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت مادرِ ملّت ؒسے ملاقات کے لئے سرگودھا سے لاہور آئے تھے۔ 
ملاقات میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور میاں محمد اکرم طورؔ صاحب بھی شامل تھے۔ شکر گڑھ میں آسودۂ خاک چشتیہ سلسلہ کے ولّی حضرت بابا فرید شکر گنج  ؒ پنجابی زبان کے پہلے تھے  شاعر اور میاں محمد اکرم طور صاحب کو اُن کا سارا کلام از بر تھا، پھر مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور میاں محمد اکرم طور سے میری باقاعدہ دوستی ہوگئی ۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ اگر عزیزانِ گرامی  مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسی  کا تعلق "Media" سے نہ ہوتا توکیا پھر بھی اُن سے میری دوستی ہو جاتی؟۔ 
مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھااور تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میاں محمد اکرم طور نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( قادریہ سلسلہ کے ولی ) بابا بُلھے شاہ قصوریؒ سے بہت متاثر تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جب روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کِیا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کہا کرتے تھے کہ ’’ بھٹو صاحب نے قصور کے ( قادریہ سلسلہ کے ولی ) بابا بُلھّے شاہ ؒکے کلام سے متاثر ہو کر یہ نعرہ تخلیق کِیا ہے۔ بابا بُلھّے شاہ ؒنے تو، بہت پہلے اللہ کے بندوں کو اللہ سے یہ دُعا مانگنے کی تلقین کی تھی کہ …
’’منگ اوئے بندیا، اللہ کولوں،
گُلّی ‘ جُلّی ، کُلّی!‘‘
…O…
یعنی ’’ اے بندے ! تو اللہ سے روٹی ، کپڑا اور مکان مانگ ‘‘۔ 
معزز قارئین! 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں مَیں نے پاکستان کی مسلح افواج اور اہلِ پاکستان کی شان میں دو ملّی ترانے لکھے اور جب ، میرا ایک ملّی ترانہ بار بار ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا تو مرزا شجاع اُلدّین بیگ اپنے دو دوستوں کو ساتھ لے کر مجھے مبارک باد دینے کے لئے سرگودھا گئے تھے ۔ ایک بار مَیں میاں محمد اکرم کی دعوت پر پاکپتن شریف بھی گیا تھا۔ 
’’ خاتون اوّل بشری بی بی ! ‘‘ 
معزز قارئین ! جناب عمران احمد خان نیازی کی 18 فروری 2018ء کو پاکپتن شریف کی بی بی بشریٰ سے شادی ہُوئی جو  ’’ مانیکا ‘‘ ( راجپوت ) ہیں ۔ جنابِ عمران احمد خان نیازی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے پہلے اور بعد میں بھی خاتونِ اوّل اور دوسرے احباب کے ساتھ کئی بار بابا فرید شکر گنج  ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہُوئے ہیں ۔ 
’’بابا فرید شکر گنج  ؒ کے دوہے !‘‘
معزز قارئین ! فی الحال مَیں ’’ روٹی‘‘ کے مسئلے پر بابا فرید شکر گنج  ؒ کے صِرف 2 دوہے پیش کر رہا ہُوں۔ ایک دوہے میں آپؒ نے فرمایا کہ …
فریدا! روٹی میری کاٹھ دِی، لا ہون میری بُھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ !
…O…
یعنی۔ ’’ اے فریدؒ!۔ میری روٹی ، لکڑی کی ہے میری بھوک اتارتی ہے ، اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے ) کھانے والے ( اُمرا ئ، خاص طور پر بد عنوان لوگ ، (آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کریں گے ‘‘۔ دوسرے دوہے میں بابا جیؒ نے اپنے حوالے سے غریب غُرباء کو مشورہ دِیا کہ …
فریدا !رُکھّی ، سُکھّی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی!
دیکھ پرائی چوپڑی ، نہ ترسائیں جی!
…O…
یعنی ’’ اے فرید ! رُوکھّی سُوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر ( زندگی بسر کر ) لیکن دوسرے لوگ جب چُپڑی روٹی کھارہے ہوں تو اُنہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا ‘‘۔ 
’’کالے لِکھ نہ لیکھ!‘‘
معزز قارئین! "Four Pillers of the State" ( ریاست کے چار ستونوں ) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا لیکن بابا فرید شکر گنج  ؒنے -1  پارلیمنٹ (Legislature) -2 حکومت (Executive) -3 جج صاحبان  (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی  تھی کہ …
فریدا! جے تُوں عقل لطیف ، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
…O…
یعنی ’’ اے فرید ! اگر تو باریک بین عقل رکھتا ہے تو’’ کالے لیکھ‘‘ ( سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر جھکا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ۔‘‘

ای پیپر دی نیشن