وہ غریب تھا لیکن اپنی ہمت اور جرات کے باعث شہر میں ’’ٹارزن‘‘ کے نام سے مشہور تھا ۔یہی وجہ تھی کہ سائلین اس کے پیچھے پیچھے پھرتے ۔اور وہ ہر جانے انجانے کی مدد کرتا ۔رات کے پچھلے پہر اٹھتا تہجد کی نماز ادا کرتا اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اُس رحمان و رحیم کا شکریہ بھی ادا کرتا کہ جس نے اُسے معاشرے میں عزت و توقیر عطا کی ۔ایک دن اُسے اپنی بیٹی جس نے ایم بی بی ایس کر رکھا تھا ۔ جاب کے سلسلے میں ایک اہم سیاسی شخصیت وزیر باتدبیر کے پاس جانا پڑا ،گارڈ نے اُسے پروٹوکول کے ساتھ صاحب کے پاس پہنچا دیا ۔ٹارزن اس عزت افزائی پر بہت خوش ہوا ۔دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اوپر اللہ کی ذات مہربان ہے تو زمین پر یہ صاحب بھی کسی فرشتے سے کم نہیں ۔صاحب کو سلام کرکے وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا ۔صاحب ضروری کاموں سے فارغ ہوکر اُس کی جانب متوجہ ہوا ۔بولا ! ٹارزن کیا بات ہے ؟کیسے آنا ہوا ، کیوں پریشان ہو؟ ٹارزن نے آنے کا مدعا بیان کیا ۔صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، کام کروا دیتا ہوں ۔ابھی کال کرتا ہوں ۔ٹارزن خوش ہوا ، صاحب نے فوری طور پر اپنے پی اے سے کہا کہ متعلقہ آفیسر سے بات کروا دو ۔پی اے نے فون ملا کر دیا تو صاحب نے ہیلو ہائے کے بعد سفارش کی اور سختی سے تاکید کی کہ ’’ٹارزن بہت گریٹ مین ہے ،اس کا کام ہر حالت میںہونا چاہئے ۔فون کے بعد صاحب نے ٹارزن سے درخواست لی ،اُس پر’’لال سیاہی‘‘ سے خوبصورت ساسفارشی جملہ لکھا ،دستخط کئے اور پی اے سے کہا کہ اس پر مہر بھی لگادے ۔وہ درخواست لے کر خوشی خوشی دفتر سے باہر نکل گیا ۔صاحب دوبارہ پی اے کی جانب پلٹا اور بولا کہ اسی افسر سے دوبارہ کال ملوا دے ۔دوبارہ کال ملی تو صاحب نے آفیسر سے کہا کہ ’’جناب ! تو بادشاہ ہیں ،میں نے اس کا دل رکھنے کے لئے اُس کے سامنے آپ کو فون پر اُس کا کام کرنے کا کہہ دیا کیونکہ ہم تو سیاسی لیڈر ہیں ،ہماری مجبوری ہے کہ ہمیں حلقے کو مطمئن کرنا ہوتا ہے ،باقی آپ کی مرضی ،اُس کا کام کریں یا نہ کریں ،کیونکہ میں آپ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا ۔ادھرٹارزن مذکورہ آفیسر کے پاس پہنچا تواُس نے مکمل عزت و تکریم کے ساتھ اُسے خوش آمدید کہا ،اُس کی خوب خاطر تواضع کی اوردرخواست لے کر رکھ لی ، اور بولا’’آپ فکر نہ کریں ،جب صاحب نے کہہ دیا تو آپ کا کام ہو جائے گا ۔ٹارزن دل کو تسلی دیتا ہوا چلا گیا ۔کئی ماہ گذر گئے ۔کوئی کال نہ آئی تو وہ خود اسی آفس آ گیا اور آفیسر سے شکوہ کیا کہ کئی ماہ گذر گئے آپ نے بلایا ہی نہیں ۔تو موصوف گویا ہوئے کہ جناب ملازمت کے لئے مقرر قواعد و ضوابط پر آپ کی بیٹی پوری نہیں اترتی ۔ صاحب نے تو سیاست کرنا ہوتی ہے ۔وہ تو درخواست دیکھنے کی تکلیف بھی نہیں کرتے کہ سائل چاہتا کیا ہے ۔ہم نے تو پوری کوشش کی تھی لیکن بیٹی میرٹ پر پوری نہیں اتری ۔آپ کی درخواست ہمارے پاس جمع ہے ۔جوں ہی کوئی پوسٹ نکلتی ہے ہم اُسے بلوا لیں گے ۔
لوگوں کے چھوٹے بڑے کام آسانی سے کروانے کی صلاحیت رکھنے والا اپنا کام کروانے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔اپنی بے بسی پر اُس کے دل و دماغ شل ہونے لگے ۔اپنے کارناموں پر غور کرتا ،دل ہی دل میں خوش ہوتا لیکن آنسوؤں کی جھڑی سے اُس کے کپڑے بھیگ گئے ۔دنیا داروں کی سوچ پر ماتم کرتا ۔اندر ہی اندر یہ کرب اُسے کھانے لگا ۔ایک نظر وہ بیٹی کو دیکھتا ،دوسری نظر بیوی اور دیگر بچوں پر ڈالتا ۔بیٹی کواعلیٰ تعلیم دلانے کیلئے اُس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔سب خوش تھے کہ بیٹی ڈاکٹر بن جائے گی ۔دکھی انسانیت کی خدمت کرے گی ۔لیکن میرٹ کی تلوار اور شخصیات کی جنگ نے اس کے سبھی خواب چکنا چور کر دئیے ۔سوچتا لوگوں نے اسے کتنا بڑا نام دے رکھا ہے ۔ٹارزن ۔۔اور آج ٹارزن اس قدر بے بس ہے کہ اپنی بیٹی کا کام نہیں کروا پا رہا ۔اسی دکھ اور پریشانی میں وہ بستر سے جا لگا ، دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر وہ تھک چکا تھا ۔ بیٹی نے اُسے بتایا کہ اُس کی سہیلی صفیہ کے والدآفیسر ہے اُس کا انتخاب ہو گیا ہے ۔باپ کا دل اور رنجیدہ ہو گیا ۔وہ اپنے ربّ کے حضور گڑگڑایا ، انصاف مانگا ،بیٹی کی آرزو بیان کی ۔اسی حالت میں اُس کی آنکھ لگ گئی ۔فجر کے وقت جب بیٹی باپ کو جگانے کیلئے گئی تو اُس نے آواز دی، بابا!اٹھیں نماز کا وقت ہو گیاہے ۔بابا روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا ،رات کو تہجد بھی ضرور پڑھتا تھا وہ جو سارے گھر والوں کو نماز کیلئے جگاتا تھا ۔بیٹی کے بلانے پر بھی نہ اٹھا ،اتنے میں ماں اور بھائی بھی آگئے ۔ٹارزن کو ہلا یا مگر وہ نہ بولا اور نہ اُٹھا ۔اُسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنی حقیقی منزل کی جانب رخت سفر باندھ چکا تھا ۔گھر میں کہرام مچ گیا ۔بیٹی کا دکھ باپ کی جان لے گیا ۔
ٹارزن اس دنیا میں نہیں رہا ۔بیٹی کو ڈاکٹر بنتا دیکھنے کاخواب ادھورا رہ گیا ۔ماں اور بھائیوں نے اُسے تسلی دی ۔اللہ سے نااُمیدنہ ہونے کی تلقین کی۔اور اس کام کو اللہ کی رضا سمجھ کر سبھی مرحوم کیلئے دُعا میں مشغول ہو گئے ۔وہ ٹارزن تھا مضبوط اعصاب کا مالک تھا لیکن بیٹی کا غم سہہ نہ پایا ۔بیٹی نے بھی ہمت نہ ہاری ، جاب کیلئے کوششیں جاری رکھیں ۔بالآخر اپنی صلاحیتوں اور ماں باپ کی دعاؤں سے وہ کامیاب ہو گئی ۔اُس نے مسیحا بن کر دکھی انسانیت کی خدمت شروع کردی ۔اس مقصد کو آگے بڑھانے کیلئے اُس نے چیریٹی کا ادارہ بنا لیا اور غریبوں کی خدمت کیلئے ایک ہسپتال بنا یا جسے اپنے باپ کے نام سے منسوب کرکے ’’ٹارزن ہسپتال ‘‘ رکھ دیا ۔باپ نے ساری زندگی لوگوں کی خدمت میں گذاری،اب بیٹی نے بھی باپ کے خوابوں کی تکمیل کیلئے خود کو وقف کر دیاتھا ۔ اُس کے ہسپتال سے کبھی کوئی غریب و نادار مریض مایوس ہوکر کبھی نہیں لوٹا ۔ شہر کے لوگ اس نیک کام پر جہاں اُسے دعائیں دیتے وہاں اُس کے مرحوم باپ کی مغفرت کیلئے بھی جھولیاں بھر کر دعائیں دیتے ۔