سیاست میں تشدد کی حالیہ لہر


عمران خان کا پر امن کاروان اپنے سفر کی جانب گامزن تھا کہ ایک چینل کی رپورٹر صدف نعیم کینٹینر کی زد میں آ کے جان کی بازی ہار گئی. ہر جانب سے شور اٹھا وفاق نے اور مرکز نے اپنے اپنے مقابلے ہی میں سہی مرحومہ کے لواحقین جو پچاس پچاس لاکھ ادا کئے. چلیں اس غریب کے بچوں  کا کچھ بن جائے گا عمران خان نے نیچے اتر کر اس پہ اپنی چادر بھی ڈالی اور اپنا سفر بھی اسی مقام پہ روک دیا جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا.  پھر ایک موٹر سائیکل کو حادثہ پیش آیا اب جب قافلہ وزیرآباد پہنچتا ہے تو پر امن قافلے پر گولیاں چلائی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک بے گناہ جو اپنے بچوں کے ساتھ مارچ میں شریک تھا جان سے گیا اور متعدد رہنما زخمی بھی  ہوے یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے سیاست میں پسند نا پسند کا فیصلہ گولی نہیںکیا کرتی نہ ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں اس نئی لہر نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
ایک ایسا شخص جو خود اپنے بیان پہ قائم نظر نہیں آتا وہ بندوق لے کے فیصلے کرنے سڑک پہ نکل آیا ہے بنا کسی انجام کے خوف کے بھرے مجمع میں پاکستان کے مقبول رہنما پہ گولی چلاتا ہے اس کے اندر یہ غصہ اور یہ بے خوفی کس نے بھری ہے. اسے کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ کہے کہ یہ رہنما پاکستان کی عوام کو گمراہ کر رہا ہے اس لئے گولی سے مارنے کا فیصلہ کیا ہے کیا اس ملزم کی اپنی بھی کوئی رائے ہو سکتی ہے؟ بظاہر تو یہ اتنی بڑی بات کہنے کے قابل دکھائی نہیں دیتا بہر طور اس معاملے کی اعلی سطحی چھان بین کی ضرورت ہے پاکستان کی سیاست میں تشدد کی یہ لہر ملک و ملت کے حق میں نہیں ہے یہ ایک سوال ہے پھر سیاسی اختلاف ذاتی کیوں ہوتے جا رہے ہیں ان میں جنون کی آمیزش بہت خرابی پیدا کر دے گی یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے. اس سے پہلے ایک گورنر بھی اس جنون کا شکار ہو چکے ہیں نوید نامی ملزم کی سچائی اور حقیقت کیا ہے اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا مگر پہلے اس جنون کو روکو جس کے تحت بات زبان سے بندوق تک پہنچتی ہے  اختلاف رائے سیاست کا حسن ہے. مگر جنون اور تشدد سیاست کا حسن نہیں.ایک بات اور بھی وہ یہ کہ جب ساری سیاسی جماعتوں کے بڑے چھوٹے رہنما واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں پھر بھی سیاسی کشیدگی میں کمی کیوں نہیں آ رہی. پی ٹی آئی کی جانب سے فوری طور پہ وزیر داخلہ کو مورد الزام ٹھرانہ بھی کوئی اچھا قدم نہیں ہے اور ابھی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا عام آدمی کو تکلیف میں مبتلا کرنا کون سی سیاسی خدمت ہے جہاں تک سوال ہے حملہ آور نوید کی بیوی نے بتایا کہ ایک بار پی ٹی آئی کے کیمپ میں اونچی آواز میں میوزک چلنے پر یہ شخص بہت ناراض ہو گیا تھا تو آج گویا وہ اپنا بدلہ لینے آیا تھا. معاملہ بہت ذاتی سطح کا لگتا ہے انکوائری سے مزید پتہ چلے گا مگر اس طرح کی سوچ کو کچلنا ہو گا اگر خدانخواستہ گولی کوئی بڑا نقصان کر دیتی تو ملک کی صورتحال کیا ہونی تھی. اس سارے واقعے میں ایک اور افسوس ناک صورت حال یہ ہوئی کہ گوندل نامی ایک شخص جو بچوں کے ساتھ لانگ مارچ میں شریک تھا اس بے گناہ کی جان چلی گئی جو کہ افسوس ناک بات ہے اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ اس کھلاڑی کی نعش کے پاس اس کے بچوں کے سوا کوئی نہ تھا بچوں کی عمریں بھی چھوٹی ہیں جو ابو کو یہ کہتے رہے کہ ابو اٹھو امن ہو گیا سب چلے گئے ہم بھی چلیں مگر ابو تو بہت دور چلے گئے تھے ہر چند کی بعد میں مرحوم کے گھر پی ٹی آئی کی قیادت تعزیت کے لئے گئی ہے کیا برا کہ اگر باقی پارٹیوں کے رہنما بھی مرحوم کے بچوں کی دلجوئی کرآئیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...