اسلام سے پہلے عربوں میں شراب اورجوئے کا چلن عام تھا، نتیجہ میں دوسری بہت سی قباحتیںبھی درآئی تھیں۔ اسلام کی تعلیمات جیسے جیسے عام ہونے لگیں ، ویسے ویسے سلیم الفطرت لوگوں کو برائیوں کا وجود بھی کھٹکنے لگا ، بعض صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کیا کہ ایسی چیز جو عقل کو زائل کردے اورمال ودولت کو برباد کردے، اسکے بارے میں کیا حکم ہے، حضور انور ﷺ کی بابرکت صحبت اورتعلیم وتربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین میں ایسی چیزوں کے بارے میں احساس پیدا ہونا ضروری بھی تھا، وہ سمجھ گئے تھے کہ اسلام جن نیکیوں اورخوبیوں کا حکم دیتا ہے، اسکے برعکس شراب اورجوئے کے استعمال سے عقل کا زیاں ہوتا ہے، انسان بدکلامی اورگناہ کی طرف مائل ہوتا ہے، سورہ بقرہ میں شراب اورجوا کی حرمت کیلئے گویا کہ اَذہان کی تیاری کا آغاز ہوا،اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا کہ (اے نبی )لوگ آپ سے شراب اورجوئے کے بارے میں استفسار کرتے ہیں انھیں فرمادیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اوربظاہر اس میں لوگوں کیلئے فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ اس فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔(۲۱۹)اس آیت مبارک میں جس فائدے کا ذکر کیاگیا وہ انکے ایک رواج کی طرف اشارہ ہے ،جب کبھی عرب میں قحط پڑجاتا خاص طور پر موسم سرما میں تو عرب کے کچھ سخی اورمخیر حضرات اکھٹے ہوتے ، خوب شراب پیتے ، پھر شراب کی مستی میں جس کسی کے اونٹ یا اونٹنی کو چاہتے ذبح کردیتے ، پھر اسکے مالک کو منہ مانگے دام اداکر دیتے اوراسکے گوشت پر جوا کھیلتے ، ہر شخص جتنا گوشت جیت لیتا، وہ ان غریب لوگوں میں بانٹ دیتا جو اس موقع پر جمع ہو جاتے ۔یہ روایت عرب میں بڑی محبوب سمجھی جاتی ، جب وہاں قحط کی صورت پیدا ہوتی یا جاڑے کی وجہ سے سامان رسد کم ہوجاتا ، ایسی تقریبات کا انعقاد کرنے والوں کو سخی گردانا جاتا اور معاشرے میں انکی بڑی تکریم کی جاتی، اور جو لوگ ان مجلسوں سے گریز کرتے ان کو ’’برم‘‘یعنی بخیل کہا جاتا۔عرب شعراء ایسی محفلوں کی اپنے کلام میں بڑی تحسین کیا کرتے ، قرآن پاک نے اچھی طرح باور کروادیا کہ ایسے فائدے محض عارضی ہواکرتے ہیں، معاشرے کیلئے شراب اور جوئے کے مضمرات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ چونکہ سوسائٹی میں انکی عادت بہت ہی راسخ ہوچکی تھی ، اس لیے پہلے مرحلے پر انکے نتائج کی طرف اشارہ کیا، پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ کسی صاحب نے نشہ کی حالت میں امامت کروادی اور قرآت کو بالکل غلط کردیا تو یہ ممانعت آئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھو، پھر ایک محفل میں شراب کی وجہ سے نوبت بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے تک پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے التجاء کی اے اللہ شراب کے باے میں واضع حکم نازل فرما،اب شراب کی حرمت کا اٹل حکم آگیا۔