پاکستان کی یواین انسانی حقوق کونسل  میں 7 نکاتی سفارشات 


پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھارت کو جموں و کشمیر سے متعلق سات نکاتی سفارشات پیش کر دیں۔پاکستان نے جموں و کشمیر اور لداخ کو اٹوٹ انگ قرار دینے کا بھارتی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے بھارت کو یاد دلایا کہ اس نے اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 25 کے تحت بین الاقوامی قانون کیمطابق جموں و کشمیر سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرنا ہے۔
جنیوا میں پاکستانی مشن کے تھرڈ سیکرٹری دانیال حسنین نے چوتھے یونیورسل پیریڈک ریویو (یوپی آر) کے چیئر مین کو مخاطب کرتے ہوئے پاکستان کے سات نکات کی نشاندہی کی جن پر بھارت سے عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس میں سرفہرست یہ مطالبہ شامل ہے کہ بھارت 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں اٹھائے گئے اپنے غیرقانونی اقدامات واپس لے اور جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی کا عمل روکا جائے۔ دیگر مطالبات میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیاں بند کرنے کیساتھ ساتھ کشمیر کے سیاسی اسیروں‘ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کرنا بھی شامل ہے۔ پاکستان کی طرف سے یواین انسانی حقوق کونسل میں سات نکاتی سفارشات پیش کرنا خوش آئند ہے۔ بھارت پچھلے 75 سال سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کو کسی خاطر میں نہیں لا رہا‘ تو اس بات کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے کہ وہ ان نکات پر عملدرآمد پر آسانی سے آمادہ ہو جائیگا۔ بھارت کے 5 اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام کیخلاف اقوام متحدہ نے یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاس منعقد کئے جن میں مذمتی بیانات سے بات آگے نہ بڑھ سکی‘ کسی ملک کی طرف سے بھارت پر دبائو نہیں ڈالا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کشمیر پرہونیوالے عالمی سطح کے کسی بھی اجلاس کو خاطر میں نہیں لاتاجس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ بھارت کو کھلی چھٹی دی جاچکی ہے۔ جب تک اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے مطابق بھارت کو قراردادوں پر عملدرآمد کرنے پر مجبور نہیں کرتی اور اس پر عالمی دبائو نہیں ڈالا جاتا‘مقبوضہ کشمیر میںاس کا غیرقانونی تسلط ختم نہیں کرایا جا سکتا۔ پاکستان نے انسانی حقوق کونسل میں اپنے سات نکات پیش کر دیئے ہیں‘ اب یواین انسانی حقوق کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سفارشات کے ہر نکتہ پر عملدرآمد کیلئے بھارت کو مجبور کرے۔ 

ای پیپر دی نیشن