وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے سود کے خلاف درخواستیں واپس لینے کا اعلان خوش آئند ہے ۔سودی معیشت ایک ناسور ہے جس نے تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔حکومت فوری طور پر ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔ حکومت کے اس فیصلے سے اسلامی اور خوشحال پاکستان کی طرف بڑی پیش رفت ہوگی ۔ ملک و قوم کی ترقی کے لئے سودی معاشی نظام کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ درحقیقت سودی نظام تمام مسائل کی بنیادی جڑ ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کی غرض سے ہر دور کی حکومت نے اپنی اپنی بساط کے مطابق غلامی کا طوق گلوں میں ڈالا اور ملک و قوم کے نام پر لوٹ مار ،خرد برد کا بازار گرم کئے رکھا ۔تمام حکومتیں اس گناہ میں برابر کی شریک ہیں۔سود کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں امریکہ سمیت تمام بڑے ممالک اس کا خمیازہ بھگتے دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ شرعی عدالت نے فیصلے میں کہاکہ 1839سے نافذالعمل انٹرسٹ ایکٹ مکمل طور اسلامی شریعت کے خلاف ہے،لہذا سود کیلئے سہولت کاری کرنیوالے تمام دوسرے قوانین،اور مختلف قوانین کی شقیں غیر شرعی قرار دی جاتی ہیں۔ فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے یکم جون 2022 سے سود لینے سے متعلق تمام قانونی شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا اور کہا کہ قرض سمیت کسی بھی صورت میں لیا گیا سود ربا کے زمرے میں میں آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سود دینا ربا میں آتا ہے، اس لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ٹرانزیکشنز کو سود سے پاک بنائے جانے کی خاطر اقدامات کیے جائیں۔اس سلسلے میں بین الاقوامی معاشی اداروں اور بنکوں کے ساتھ لین دین کے نظام کو بھی سود سے پاک بنانے کا حکم دیا۔وفاقی شرعی عدالت نے پاکستان میں موجود اسلامی بینکنگ کا ڈیٹا بھی طلب کیا تھا، جس کے مطالعے کے نتیجے میں کہا گیا کہ سود سے پاک بنکاری کا نظام ممکن ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدالت وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات کی دلیل سے سے متفق نہیں ہے۔سپریکم کورٹ نے بھی سودی نظام کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا سود سے پاک اقتصادی نظام بنانے پہ زور دیا۔جس پر حکومت نے نظرثانی کی درخواستیںدیں تھیں۔قارئین ایک بات یاد رکھیں کہ وفاقی شرعی عدالت1990میں سودی نظام کے خاتمے کے متعلق پہلی درخواست دائر کی گئی تھی۔تقر یبا 19سال سے شریعت کورٹ میں سودی نظام کے خلاف کیس زیر التواہے اس دوران کئی سماعتیں ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کے 9چیف جسٹس صاحبان مدت پوری کرکے چلے گئے،جبکہ 2002 سے2013 تک مقدمے کی ایک سماعت بھی نہ ہوئی۔
سود اور پھر سود درسود کانظام ایسا ہی بے رحم ہے کہ مجبور،کمزور، غریب، بے بس شخص اپنے خونِ حیات کے قطرے قطرے کشید کرکے مہاجنوں، بینکوں اور سرمایہ داروں کیلئے دولت کی نہروں میں تبدیل کردیتا ہے مگر پھر بھی سود کی رقم سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا ۔ معاشرے کی سطح پر جو کچھ سود خور کرتاہے، ملک کی سطح پر وہی کچھ بڑے بینک کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی یہی کام کرتا ہے۔ غریب ممالک کو زبردستی قرض لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ملکوں پر اربوں کھربوں روپے کا سود چڑھ جاتاہے۔ بد قسمتی سے مسلمان سرمایہ پرستانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کے اندر جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ انھیں اس نظام سے مفر نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام سے جلد از جدل نجات حاصل کی جائے۔ معاشرے میں زکوٰۃ کا پاکیزہ اجتماعی نظم قائم کریں۔ اگر اس کا بہتر و معتبر نظم کیاجائے تو ضرورت مند مسلمان کو ’شدید گھریلو ضرورت‘ سے لے کر کاروباری ضروریات تک سود پر قرض لینے کی حاجت پیش نہیں آئے گی۔