ہم حق کے پیروکار ہیںیا باطل کے آلۂ کار؟ 


یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ’’رنگ و رُوپ ،وہ جو میرے پیا من بھائے‘‘۔’’ہر موسم میرے ساجن کی ادا سے جڑا ہے‘‘۔اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو دنیا کے آدھے سے زائد مسائل حل ہو جائیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو سمجھنے میں ہمارے لوگ ذرا دیر کر دیتے ہیں۔شائد ان لوگوں نے سُن رکھا ہے کہ ’’اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے‘‘۔مگر یا درکھیں! آج کے لوگ نہ تو اقبال ہیں اور نہ ہی اُ س کے کردار سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ نقل تو کر سکتے ہیں مگراصل نہیں ہو سکتے۔پچھلے دنوںملک میں ہونیوالے ضمنی انتخابات کے نتائج حکومتی اتحاد کیلئے ایک ڈرائونے خواب کی طرح ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست کے تمام گُرو اکٹھے ہو کر بھی پاکستان کے عوام کے ہاتھوں پٹ گئے۔یہ ہے ان کی عوام دوستی اور محبت کا ایک ثبوت ۔موجودہ سیاسی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت ہر صورت عمران خان کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے مگر افسوس انجانے میں معصو م عوام ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف ہی صف آراء ہو چکے ہیں۔عوام کواس حقیقت کا ادراک جتناجلد ہو گا اُتناہی ملک و قوم کیلئے فائدہ مند ہوگا۔اگر حکومت کی بات کریں تواس بات میں کوئی شک نہیں کہ زرداری اور آل شریف کے مفادات اور تحفظات یکساں ہیں اُن کے ساتھ مولانا فضل الرحما ن جیسے لوگ بھی ہیں جو احتسابی عمل کو بہتر اور موثر بنانے کی بجائے ان میں ترامیم کر کے بچائو کے راستے تلاش کر رہے ہیں مگر دوسری طرف ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ عمران خان اور اُنکی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کی اپنی پوزیشن کیا ہے؟۔اگر ایک طرف منی لانڈرنگ، بیرون ملک جائیدادیں ، ٹی ٹیز بے نامی جائیدادیں، کک بیکس، کرپشن اور اقربا پروری وہ کھلی حقیقتیں ہیں جن سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا تو دوسری طرف بھی فارن فنڈنگ،توشہ خانہ،بی آر ٹی،نندی پور،سائفر کی کہانی،اداروں سے ٹکرائو،مذہب کارڈ کا استعمال اور اقتدار کے حصول کیلئے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا جیسے عوامل یقیناً عام آدمی کیلئے فکر مندی کا سبب ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں صاف نظر آتاہے کہ تمام تر اندرونی و بیرونی مسائل سے قطع نظر حکومت صرف اپنی کرپشن کو چھپانے اوربچانے میں مصروف ہے جبکہ موجودہ اپوزیشن ملکی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی کیفیت پیداکر کے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنا چاہتی ہے ۔ دونوں فریقوںکی جانب سے ملک کی بہتری،استحکام اور سلامتی کی خاطر موجودہ کرپٹ نظام کے خلاف جدوجہد اب صرف نعروں تک نظر آتی ہے۔ پاکستانی قوم کی شخصیت پرستی کی عادت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے ملک کا حکمران طبقہ ذاتی مفادات کی خاطر کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی اور کبھی کسی فوجی آمر کی گود میں بیٹھ کر ملک اور عوام کی نام نہاد خدمت کا ڈرامہ کرتا دکھائی دیتا رہا ہے۔ ان سیاست دانوں کی اس شاندار ملکی اور عوامی خدمت کے نتیجے کے طور پر آج ہر پاکستانی تقریباً دو لاکھ روپے سے زائدرقم کا مقروض ہے جبکہ ملکی ادارے بھی تباہ حال ہیں،ملک میںکرپشن کی داستانیں عام ہیں،عام گھروںکے تہہ خانوں میں ڈالرز ہیں،ٹی ٹیز اور بے نامی اکائونٹس کی بہاریں ہیںدوسری طرف عوام کے ا ن نام نہاد خدمت گاروں کے ذاتی ملکی اور غیر ملکی کاروبار منافع بخش بنتے جارہے ہیںجس سے اُنکی ملکی اور غیر ملکی جائیدادوں کی فہرست لمبی سے لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بزنس امپائر کیسے وجود میں آئی اور بینک اکائونٹس کا بھاری حجم کیسے ممکن ہوا؟بد قسمتی سے اس بارے میں اب تک کوئی بھی ثبوت منظر عام پر نہیں لایا گیا۔دوسری طرف حالت یہ ہے کہ تمام ملکی اداروں کو تباہ کرنے،بے روزگاری پر غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرنے ، زرعی ملک کو بنجر بنانے کیلئے پانی جیسے اہم مسئلہ کو نظر انداز کرنے، تجارتی خسارے کو انتہا پر پہنچانے ، ملکی کرپشن پر چشم پوشی کا رویہ اختیار کرنے اور عوام کو غیر ملکی قرضوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑنے والی تمام سیاسی پارٹیاںآج ایک بار پھر سے عوام دوستی کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ عجب تماشہ دیکھیں کہ تنخواہ دارمیڈیا چینلز او ر اینکز ر ٹی وی پروگرامز میں اپنی پسند کی سیاسی جماعت کی معمولی باتوں کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے مخالفین پر اپنا غم و غصہ نکالنے میںاس قدر مصروف ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں اور ملکی مفادات کا بھی خیال نہیں رکھتے جبکہ عوامی،معاشرتی،اخلاقی اور ملکی معاشی معاملات کو ٹاک شوز میں زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔ یاد رہے کہ خدائی قانون کے مطابق جس طرح فطرت فائدہ مند اشیاء کو باقی رکھتی ہے اور غیر فائدہ مند اشیاء کو فنا ہو جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی جماعتوں میں بھی صرف ایسی جماعت کیلئے بقا ہے جس میں دنیا میں بسنے والوں کیلئے نفع ہو۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم حق کے پیروکار ہیں یا با طل کے آلہ ٔکار؟

ای پیپر دی نیشن