شاہد حمید بھٹہ
ملک بھر میں گنے کی امدادی قیمت یکساں نہ ہونے کھادوں اور بیجوں کی بلیک مارکیٹنگ اور شوگر ملز مالکان کی طرف سے کرشنگ سیزن میں بے جا تاخیر کر کے ایک مرتبہ پھر ملک کو غذائی بحران کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے سے ز ر عی مداخل کھادوں ،بیجوں زرعی ادویات کی قیمتوں کی بلیک مارکیٹنگ کو نہ روکنے کے باعث خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی گندم کا بحران رہے گا جس سے کھانے پینے کی تمام اشیاءمہنگی ہونے سے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو جائے گا۔پنجاب کے مثالی کاشتکار کسان رہنما ملک محمد اسماعیل کھر نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ذرائع مداخل کھاد بیج زر عی ادویات ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کریں اور ان کو کنٹرول نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے ملک میں لانگ ٹرم زر عی پالیسی کا نفاذ کیا جائے تاکہ ملک کو زرعی طور پر خود کفیل کر کے معاشی طور پر مضبوط کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ ملک میں جامع زرعی پالیسی نہ ہونے کے باعث کاشتکار طبقہ شدید پریشانی کا شکار ہے گندم کی کاشت شروع ہے لیکن کسانوں کے پاس مہنگی اور بلیک میں فروخت ہونے والی ڈی اے پی کھاد خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں شوگر ملز مالکان کے آ پس گٹھ جوڑ کے باعث کاشتکاروں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ دوبارہ نقصان میں جانے والے گنے کو اپنی زمینوں پر کاشت کریں تاکہ ان کی انڈسٹریز چلتی رہیں شوگر ملز مالکان کی ہر سال ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ شوگر ملز کو تاخیر سے چلایا جائے تاکہ کاشتکار گنے سے خالی ہونے والی زمین پر گندم کاشت نہ کر سکے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح رواں سال بھی کسان تنظیموں کے بار بار احتجاج کے باوجود شوگرز ملز مالکان نے 20 نومبر سے کرشنگ سیزن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے 20 نومبر سے کرشن سیزن شروع ہونے سے گنے کی کاشت کردہ زمین پر گندم کی اگیتی کاشت ممکن نہیں ہوگی اور کسان مجبورا دوبارہ اس رقبے پر گنے کی کاشت کر پائے گا انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گنے کے نرخ یکساں نہ ہونے سے بھی کاشتکار طبقہ شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہے حکومت پنجاب نے گنے کی امدادی قیمت 400 روپے فی من مقرر ہے سندھ حکومت نے گنے کی امدادی قیمت 425 روپے فی من جبکہ کے پی کے کے شوگر ملز ز مالکان نے 500 روپے فی من مقرر کر رکھی ہے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ امدادی قیمت پر کاشتکاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے حکومت کو چاہیے کہ وہ گنے کی کم از کم امدادی قیمت 550 روپے فی من مقرر کرے تاکہ گنے کے کاشتکار ملک کی چینی کی ضروریات کے مطابق ملک میں گنا کاشت کر سکے اور حکومت کو چینی باہر سے امپورٹ نہ کرنی پڑے انہوں نے کہا کہ فصل پک کر تیار ہونے پر اس کی قیمت مقرر کرنے کے لیے حکومتی ادارے میدان میں آ جاتے ہیں جبکہ جب کاشتکار کو مہنگی کھاد مہنگا بیج اور مہنگی ادویات بلیک میں مل رہی ہوتی ہیں اس وقت یہ ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ کاشتکاروں سے سستے داموں اس کی فصل کو خرید کر بڑے بڑے مگرمچھ بلیک مارکیٹنگ میں یہی فصلیں جب مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اس وقت حکومتی ادارے کہاں پہ ہوتے ہیں اگر حکومت غریب کاشتکاروں کو مجبور کر کے ان کی فصل کی قیمت مقرر کر سکتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ گھی چینی آٹا دالیں اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاءفروخت کرنے والے مافیا کے خلاف بھی کاروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی ناقص پالیسی زرعی پالیسی اور شوگر ملز مالکان کی گٹھ جوڑکے باعث گنے کی کاشت کردہ رقبے میں 25 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور لوگ گنے کی کاشت کو چھوڑ کر دیگر متبادل فصلیں کاشت کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت امپورٹ کی گئی گندم 4700 روپے من کے حساب سے فروخت کر رہی ہے جبکہ اپنے ملک کے غریب کاشتکاروں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ 4000 فی من کے حساب سے گندم فراہم کریں گے اپنے ملک کے کاشتکار کا استحصال اور بیرون ممالک کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کہاں کی عقلمندی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ گندم کی امدادی قیمت پر نظر ثانی کرے اور ملک کو غذائی بحران سے بچائے