پولیس کمانڈ اور کھلی کچہریاں

اس دنیا میں بہت سے درپیش چیلنجوں میں سے ایک امیج بلڈنگ ہے جس کے لئے انفرادیت سے اجتماعیت تک لوگوں کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں مگر پھر بھی کچھ لوگوں یا اداروں کے بارے میں عمومی طور پر قائم شدہ رائے کا تاثرزائل یا ختم کرنا بہت کٹھن یا نا ممکن لگتا ہے مگر جب بھی کوئی اپنے بارے میں قائم رائے کو تبدیل کرنے کا ٹھان لیتا ہے تو کچھ ناممکن نہیں رہتا البتہ چیلنج کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے باکل اسطرح آج کل پنجاب پولیس اس منشور پر عمل پیرا ہے اور پنجاب میں پولیس کے بارے میں قا ئم عوامی سوچ اور ردعمل کو تبدیل کرنے کے لئے عملی طور پر سر گرم نظر آرہی ہے یہ بات طے ہے کہ اداروں کے عروج و زوال میں کلیدی کردار اس کے سپہ سالار یعنی ایکسٹریم باس کا ہوتا ہے جو محض اپنے ویڑن اور مشن کی بدولت عوامی سطح پر یا تو آنکھوں کا تار ا یا پھر آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے محکمہ پنجاب پولیس کی حالیہ سوفٹ امیجنگ اور انسپکٹر جنرل پنجاب پر بات کرنے سے قبل اس پوسٹ کے لئے افسر کے انتخاب کا ذکر ضروری ہے ہمارے ہاں تعیناتی کے کلچر میں جہاں افسر کی قابلیت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے وہاں سیاسی عمل دخل بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے بعض اوقات تگڑی سیاسی آشیر باد اور اثر رسوخ قابلیت پر حاوی ہو جاتا ہے۔
 ماضی میں ہمیں بہت سی ایسی عملی مثالیں دیکھنے اور سننے کو مل سکتی ہیں کہ کس طرح قابل افسران کو محض سیاسی ایجنڈا سے منحرف ہونے پر گھر کی راہ دیکھنی پڑی تحریک انصاف کی واحد حکومت ہے جس نے ساڑھے تین سال میں آدھ درجن کے لگ بھگ آئی جی صاحبان تبدیل کر کے محکمہ پولیس میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ آئی جی پنجاب یکسر مختلف انداز میں آئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان پر کسی قسم کا سیاسی دباﺅ کا نہ ہونا اور نگران حکومت کے دوران ذمہ داری کا تفویض ہونا بھی ہے۔
 اگرچہ عثمان انور کی تعیناتی پر بھی سنیئر جونیئر کیڈر اور سیاسی وابستگی کا شور و غوغا بلند ہوا تھا مگر وقت نے یہ ثابت کیا کہ پولیس کی کمانڈ کے لئے ان کا نتخاب بہت درست رہا اس لئے وہ ایک متحرک لیڈینگ شخصیت کے حامل ہیں کیونکہ شعبہ کوئی بھی ہو جہاں اس میں سربراہ کی قابلیت ، پیشہ ور مہارتیں اور تجربات اس ادارہ کی کامیابی کی کنجی ہوتے ہیں وہاں اس کی شخصیت کا جادوئی اثر بھی ایک صیغہ راز ہوتا ہے اس ضمن میں ان کا پبلک سے دوستانہ اور مشفقانہ رویہ قابل ذکر و داد ہے۔
 اگرچہ محکمہ پنجاب پولیس انتہا درجہ کے انقلابی پالیسیوں کا متقاضی ہے لیکن پھر بھی آئی جی پنجاب اپنی کپیسٹی کے مطابق پولیس کی تربیت اور اصلاحات کے ماٹو کو بڑی سنجیدگی سے لے کر چل رہے ہیں جن میں قابل ذکر نہ صرف آئی جی پنجاب کا خود روز کی بنیاد پر کھلی کچہری کا انعقاد کرنا ہے بلکہ تواتر کے ساتھ پنجاب بھر کے ڈی پی اوز کی کھلی کچہریوں کا اہتمام و انتصرام بھی ہے لیکن کھلی کچہریاں کوئی نئی اصلاح تو نہیں یہ تو پہلے بھی لگا کرتی تھیں مگر اہم چیز انکی منظم انداز میں تشہیر ہے جن کی آفیشلی ریکارڈنگ اور موقع پر شہریوں کو داد رسی فراہم کرتے ہوئے ویڈیوز کا سوشل میڈیا پر نشر کرنا ہے جن کا ملین میں ویوز جانا اور وائرل ہونا اور شہریوں کی جانب سے تعریف و وصیف کے کمنٹس آنا ہے دراصل عثمان انور سوشل و ڈیجٹل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کو ادارہ کے لئے استعمال کرنے کا گر بھی جانتے ہیں جس کے توسط وہ عوام کو باور کروانا چاہتے ہیں پولیس بری نہیں بلکہ بہت اچھی بھی ہے اور اس کا یہ چہرہ دیکھانا زیادہ ضروری ہے تا کہ شہریوں میں پولیس کے بارے میں اعتماد اور یقین بحال ہوسکے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان دنوں سوشل میڈیا پر پنجاب بھر کے ڈی پی اوز کے داد رسی کرتے ہوئے ویڈیو کلپس دیکھنے میں مل رہے ہیں ان سب ویڈیوز میں ڈی پی او ڈیرہ غازی خان کی ویڈیو ٹاپ ٹریند ہے جس کے فیڈ بیک میں شہری انہیں بے پناہ دعاوں اور محبت بھرے کمنٹس سے نواز رہے ہیں اور یہی فیڈ بیک آئی جی صاحب کے سوفٹ امیجنگ ایجنڈا کی کامیابی کی دلالت کررہا ہے مگر پھر بھی قابل بحث سوال یہ ہے اگر سائلین کو موجودہ تھانہ کلچر کے بر عکس درست انداز میں ٹریٹ کیا جارہا ہو تو کھلی کچہریوں کی شاید کبھی ضروروت ہی نہ پڑے موازناتی اعتبار سے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک خواہ انکا تعلق یورپ ،امریکہ،جنوبی ایشیا یا پھر عرب سے ہو وہاں کبھی کھلی کچہریاں بھی نہیں لگتیں اور عوام بھی پولیس سے خوش ہیں اور اس کی بنیادی وجہ پولیس سسٹم کا منظم اور شفاف ہونا ہے۔
 ان کھلی کچہریوں میں ایک بات مشترک دیکھنے میں مل رہی ہے وہ ڈی ایس پی سے لے کر عام سپاہی کا دانستہ اور سہوا مال بنانے کی خا طرمجرموں کا ساتھ دے کرپشن کا مرتکب ہونا ہے مطلب مظلوم شہریوں پولیس سے یہی شکوہ بنتا ہے” جن پے تکیہ تھا وہ ہی پتے ہو ا دینے لگے“ 
فی الحال عثمان انور کی اصلاحات کی بات کی جائے تو جہاں وہ پولیس کے بارے میں بہتر رائے قائم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں وہاں وہ پولیس ملازمین کے بچوں کے کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں جس میں تعلیمی وظائف کا اجراءنجی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلیمی معاہدے اور شہدا ءکے خاندانوں کو بروقت انکے کلیم کی ادایئگی اور تکمیل کا ہونا ہے نہ صرف یہ بلکہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے پر عزم نظر آتے ہیں جس کے لئے تربیت و آگاہی کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پنجاب کی ورکنگ وگھریلو خواتین اور طالبات کے لئے بنائی گئی ویمن سیفٹی Womrn Safty App پر بنوائی گئی ویڈیو کا وائرل ہونا ہے جس کو دوکروڑ سے زائد ویوورز دیکھ چکے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف ایک کلک پر خواتین پولیس سے مدد و تحفظ حاصل کر سکتی ہیں بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سیف سٹی اور پنجاب پولیس تواتر سے شہریوں کی رہنمائی کے لئے ویڈیو پیغامات بھی جاری کررہا ہے اور ان میں بعض اہم ایشوز پر آئی جی پنجاب لوگوں کے لئے اپنا براہ راست پیغام خود بھی جاری کرواتے ہیں ان تمام احسن اقدامات کے باوجود اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ان سطحی اقدامات کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس پنجاب کے سوفٹ امیج کے لئے مستقل اور دیر پا بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے ادارہ کو کر پشن کے ناسور اور کالی بھیڑوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...