حالات خراب ہونے کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ فطرت کی طرف سے خرابی کی ایک حد مقرر ہے جہاں سے معاملات خود بخود بہتری کی جانب چل پڑتے ہیں۔ کیا ہمارے ملکی معاملات اس نہج تک نہیں پہنچ گئے ؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سندھ گورنمنٹ کو بحریہ ٹاﺅن کی اراضی کا سروے کرانے کا حکم دیا ہے۔ سماعت کے دوران بحریہ ٹاﺅن کے وکیل نے بتایا کہ بحریہ ٹاﺅن کراچی کو دو کروڑ بہتر لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے جبکہ ویسی ہی اراضی ایک اور بلڈر کو ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی۔ بحریہ ٹاﺅن کراچی کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت لگا کر تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ دوسراچہیتا بلڈر کون ہے جسے دو کروڑ بہتر لاکھ روپے قیمت پر بحریہ ٹاﺅن کو دی گئی اراضی جیسی اراضی محض ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دے دی گئی ؟ ابھی اس بلڈر کا نام بتانے کا وقت نہیں آیا۔ممبران کا نام نہیں لکھ سکتے۔ہمارے پَر جلتے ہیں۔ لیکن یہ بات کتنی دیر تک چھپائی جا سکتی ہے ؟
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ریاست کی اراضی کسی بولی کے بغیر بحریہ ٹاﺅن کو کیسے بیچی گئی؟ چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ بحریہ ٹاﺅن کی جیب سے تو ایک روپیہ بھی نہیں گیا۔تمام روپے ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے اس جگہ پلاٹ خریدے ہیں۔ اور سنیں۔ دوران سماعت ایک درخواست گذار کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ بحریہ ٹاﺅن انتظامیہ نے ایم ڈی اے کی اراضی کے علاوہ سندھ ، بلوچستان کے سنگم پر واقع نیشنل پارک اور محکمہ جنگلات کی 40ہزار ایکڑ سے بھی زائد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دوران سماعت محمود نقوی نامی ایک درخواست گذار نے بتایا کہ بحریہ ٹاﺅن طے شدہ اراضی سے کئی گنا زیادہ اراضی پر قابض ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟ یہ لوٹ کھسوٹ کیا ہے ؟ سپریم کورٹ پوچھ رہی ہے کہ سندھ گورنمنٹ کہاں ہے ؟ سندھ گورنمنٹ کئی ایکڑوں پر محیط بلاول ہاﺅس بحریہ ٹاﺅن لاہور میں منہ چھپائے شرمندہ بیٹھی ہے۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بحریہ ٹاﺅن بلڈرز ہوں یا کوئی اور بلڈرز ، ہم نے اتنے پلاٹ کرنے کیا ہیں؟ کیا ان پلاٹوں سے گندم نکلتی ہے ؟ کیا یہ پلاٹ قومی ضرورت ہیں ؟اللہ کی زمین کے چار استعمال ہیں۔ 1۔ کھیت 2۔ جنگل 3۔ پارک شاہراہیں وغیرہ ، جو پبلک استعمال میں آتی ہیں۔ 4۔ عمارتیں۔ ان میں فیکٹریاں پلازے ، رہائشی مکان وغیرہ سبھی کچھ شامل ہے۔قیاس کریں کتنے کھیت ہیں جوہم نے پلاٹوں میں منتقل کر دیئے ہیں۔ برسوں سے ان اجاڑ پلاٹوں میں گندم کی بجائے بھوک اگتی ہے۔
ان ٹاﺅنوں کے پلاٹوں کی افادیت کیا ہے ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ کسی گھر بنانے والے تک پلاٹ کئی ہاتھ منافع چکا کر پہنچے؟ یورپ میں پلاٹ کی رجسٹری نہیں صرف بیعانہ لکھا جاتا ہے۔ تعمیر عمارت کی معیاد طے ہے۔ یہ معیاد گزر جانے کے بعد پلاٹ کی مارکیٹ قیمت کا ایک تہائی فی سال کے حساب سے جرمانہ مقرر ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے زرعی زمین کے ایک ٹکڑے کو بیکار رکھ کر کسی استعمال میں نہیں آنے دیا۔
ہمارے ملک میں یہ بات بھی اکثر زیر بحث رہتی ہے کہ کیا اسلام میں جمہوریت ہے ؟کیا پارلیمنٹ ، سینیٹ شرعی طور پر جائز ہیں ؟ کیا صدر مملکت کو امیر المومنین یا خلیفہ نہ کہنا غیر شرعی تو نہیں ؟ اس موضوع پرجنرل ضیاءالحق کے اولین دور میں رفیق احمد باجوہ کے لیکچرز ٹی وی پر بڑے تواتر سے دکھائے جاتے رہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان بننے کے خبط میں یہ ذہین فطین آدمی خوب بکا۔ قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل کے طور پر یہ ذو الفقار علی بھٹو سے مات کھا گیا۔ پھر جنر ل ضیاءالحق کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ گمنامی کی موت مرا۔اس کی موت کی خبر میں یہ خبر بھی تھی کہ وہ زندہ تھا۔ ہم جاگیرداری کے تحفظ کیلئے بھی اسلام کا ہی سہارا لیتے ہیں۔جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جاگیرداری کے خلاف عابد حسن منٹو کی رٹ سننے کا عندیہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ چند سماعتوں میں اس رٹ کا فیصلہ بھی ممکن ہے۔ حفیظ پیرزادہ بولے۔ حضور! اس مسئلے کو امت مسلمہ چودہ سو سالوں میں حل نہیں کر سکی۔ یہ مسئلہ چودہ سو سالوں سے بڑی شدت سے زیر بحث ہے۔آپ اسے چند سماعتوں میں کیسے سن سکیں گے؟ ہماری لولی لنگڑی ، اندھی کانی جیسی بھی جمہوریت ہے وہ ہمیں یورپ والوں (کافروں ) کی ہی دین ہے ورنہ بیشتر اسلامی ممالک اب بھی بادشاہت کو ہی سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
ہر بری سے بری شے میں بھی کوئی خیر کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ ایک آدھ ہی ہو۔ ہمارے ہاں زرعی زمین کی کوئی حد مقرر نہیں۔ زرعی زمین کا ٹھیکہ فی ایکڑ ایک لاکھ روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ کیا یہ ٹھیکہ انکم نہیں ؟ پھر اس پر انکم ٹیکس کیوں نہیں ؟ آئی ایم ایف نے ریٹیل سیکٹر ، رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس کیلئے انفورسمنٹ سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ زرعی ٹیکس لگانے کیلئے صوبوں سے مشاورت کرنا لازم ہے۔ یہ ایک آئینی مجبوری ہے۔ لیکن آخر کار صوبوں کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گاورنہ ہماری اسمبلیوں کی صورت حال یوں ہے کہ وہاں سے زرعی ٹیکس کا قانون منظور کروانا ناممکن ہے۔ اب آئی ایم ایف کے دباﺅ پر یہ قانون منظور کرنا ہی پڑے گا۔ ہمیں آنے والے دنوں میں بہتری کی امید رکھنی چاہئے۔ سو بہت اچھے دن آگے آنے والے ہیں۔
٭....٭....٭