اسلامی دنیا ! جرمِ ضعیفی کی تصویر

Nov 13, 2023

ڈاکٹر طلعت شبیر- اطراف

فلسطین میں ظلم و بربریت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آئے دن کوئی دل خراش منظر دیکھنے کو ملتا ہے اور رات فلسطینی مظلوموں کی بے بسی کا سوچتے گزر جاتی ہے۔ یہ سب جرمِ ضعیفی کا شاخسانہ ہے کہآپ کمزور ہیں توآپ مظلوم ہیں اورآپ کی شنوائی نہیں ہو سکتی۔آپ کمزور ہیں توآپ کو دنیا کے انصاف اور قانون کے رکھوالوں کی طرف سے ایک ٹکا سا جواب ملے گا جس میں واضح پیغام ہوگا کہ آپ غیر اہم ہیں اور غیر اہم کے لیے نہ صرف طاقتور دنیا کی اخلاقیات کا معیار مختلف ہوتا ہے بلکہ حقوق کا سانچا بھی طاقت رکھنے والوں کی منشا کے مطابق ہوتا ہے۔ آپ بھلے بین الاقوامی قوانین کی رائج اخلاقیات کے تحت راست موقف بھی اختیار کیے ہوں لیکن اگرآپ کمزور ہیں توآپ کے لیے ضابطہ اخلاق کی شرائط دنیا میں رائج نظام میںطے کی گئی ہیںاور وہ آپ کی حیثیت کے مطابق ہوں گی۔ اگرآپ کمزور ہیں تو اِس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ آپ کے حقوق بھی انھی انسانوں جیسے ہیں جو مغرب اور امریکہ میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔آپ کمزور ہیں تو آپ کا حق تو کیاآپ کا اپنا نقطہ نظر بھی نہیں ہوسکتا۔
لیکن اگرآپ طاقتور ہیں تو دنیا کا سارا نظام آپ کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور دنیاآپ کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔بھلے آپ کا موقف بین الاقوامی اخلاقیات کی صریحاً خلاف ورزی ہی کیوں نہیں ہے لیکن دنیا پھر بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملاتی چلی جائے گی۔غزہ میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔عورتیں بچے اور بوڑھے نہتے لوگ اس ننگی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دنیا اس جدید دور کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا المیہ اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتا دیکھ رہی ہے جہاں ہر آٹھ منٹ میں ایک فلسطینی بچہ مارا جا رہا ہے اور شاید اسی تناسب سے عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں اور مرد مارے جارہے ہیںیا مستقل طور پر معذور ہو رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سربراہ کی بے بسی دیکھیے کہ وہ فلسطین کو زمین پر جہنم قرار دے رہے ہیں مگر وہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے کچھ کر نہیں سکتے اور نہ ہی تین ملین سے زائد فلسطینیوں کوخوراک، پانی اور بجلی سے محروم رکھنے اور دنیا بھرسے آنے والی امداد کو روکنے کے جنگی جرم کا مرتکب ہونے والے اسرائیل کا محاسبہ کر سکتے ہیں۔ اگر سی این این کے اعداد و شمار کو ہی سچ مان لیا جائے تو غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 70 فیصد سے زیادہ بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں جب کہ تقریباً 4 ہزار افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے حملوں میںپناہ گزین کیمپوں اور ہسپتالوںکو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو سنگین جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق غزہ کے 60 فیصد سے زائد اسپتال اور طبی مراکز وحشیانہ بمباری سے تباہ اور ناکارہ ہو چکے ہیں اور کسی قسم کی سروسز کے اہل نہیں ہیں۔ دنیا کیوں اندھی اور بہری ہو چکی ہے کہ انھیں دکھائی اور سنائی نہیں دے رہا کہ غزہ میں نہ ہسپتال محفوظ ہیں، نہ مسجد محفوظ ہے اور نہ ہی چرچ محفوظ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہ کے لیے شایدیہ بھی مشکل ہے کہ وہ اسرائیل کی سرِ عام پشت پناہی کرنے والی سرکردہ عالمی طاقتوں جن میں امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور ان کے حواری سرفہرست ہیں کو یہ بتا سکیں کہ وہ معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ایسی ناانصافی نہیں کر سکتے اور اپنا اخلاقی اور قانونی وزن دہائیوں سے معصوم لوگوں پر ظلم کرنے والے ظالم کے پلڑے میں نہیں ڈال سکتے۔ دنیا میں انسانوں کے حقوق کی بات کرنے وا لے لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ عالمی ضمیر کے لیے ایک جواب طلب سوال ہے کہ ایک ماں اپنے شہید بیٹے کو مسکراتے ہوئے کیسے دفن کرتی ہے اور اس میں ایسی طاقت کہاں سے آجاتی ہے؟ لوگوں کو جگہ جگہ جدید گولہ بارود کی تباہ کاریوں سے متاثر فلسطینیوں کی لاشوں اور کٹے پھٹے جسموں کے مناظرکیوں نظر نہیں آرہے ؟ اِس بے بسی اور خو ف کے عالم میں مائیں اپنے قتل کیے گئے بچوں کا ماتم کیسے کرتی ہوں گی۔ جو غزہ میں ہو رہا ہے وہ کون بیان کرسکتا ہے۔ ایک سوچا سمجھا قتل ِعام جس میں بچوں کو جلایا گیا، حاملہ خواتین کو نشانہ بنایا گیا اور محفوظ قرار دیے گئے مقامات پر بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بمباری کی گئی۔ جنگ تو کئی دہائیوں سے جاری تھی لیکن جس طرح کے اجتماعی عذاب کا شکار غزہ کے لوگ اس بار ہوئے شاید پہلے کبھی نہ ہوئے۔ بچے روز مارے جا رہے ہیں۔ خواتین بمبوں سے گرائی عمارتوں کے ملبے تلے دبی اپنے بچوں کو دیکھتی دیکھتی مرجاتی ہیں۔ اور معصوم بچے اپنی ملبے تلے دبی ماﺅں کی لاشوں کے ہاتھ تھامے رہ جاتے ہیں۔غزہ سے تسلسل کے ساتھ آنے والی تصویریں دیکھیں اور اور خبریں سنیں گے تو آپ کو لگے گا کہ اس دنیا میں صرف ظالم کا واحد ہتھیار طاقت ہے اور وہ ہر صورت اس ہتھیار کو بلا تفریق استعمال کرکے اپنا غلبہ چاہتا ہے۔
اسلامی دنیا میں غم و غصہ ہے۔ کثیر تعداد میں مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کے رویے پر تلملا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کے رہنما صرف زبانی مذمت و ہمدردی تک محدود نہ رہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے واضح اقدامات کریں۔ لیکن شاید اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی ترجیحات میں فلسطینی مسلمان نہیں ہے۔ اب کیا امر مانع ہے کہ اِس درجہ بربریت کے باوجود نہ صرف اسلامی دنیا کے حکمران چپ سادھے بیٹھے ہیں بلکہ انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور انصاف کی عالمی اقدار کی علمبردار بین الاقوامی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے بھی خاموش ہیں۔ اسرائیل نے عالمی قیادت کی منافقت کو سرِعام بے نقاب کر دیا ہے۔ دنیا جنگی جرائم کے حوالے سے روس یوکرین میں جاری کشمکش پر مختلف موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور فلسطین اور کشمیر کے بارے میںیکسر مختلف موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور کوئی بھی عالمی طاقت اپنے مفاد سے بالا نہیں سوچ رہی۔
عالمی غم و غصے نے مسلم دنیا کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ چند مستثنیات کے ساتھ مسلم رہنماﺅں اور حکومتوں کا ردعمل شرمناک حد تک مایوس کن رہا ہے اور واضح دکھائی دے رہا ہے کہ بیشتر مسلمان ممالک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس بھی ہو چکاہے اور ایک اعلامیہ بھی جاری ہو گیا ہے۔ اعلامیے میں غزہ کا محاصرہ ختم ، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں اسرائیلی قابض حکومت کی جارحیت ، جنگی جرائم اور غیر انسانی قتلِ عام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔اعلامیے میں اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف تادیبی، معاشی اور سیاسی اقدامات پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا۔ اِس صورتحال میں اِس طرح کا موقف نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوسکے گا۔
دنیا میں طاقت کے توازن کے فلسفے کا ادراک رکھنے والے اہل دانش جانتے ہیں کہ طاقت کا سکہ بٹھانے کے لیے طاقت ہی بروئے کار لائی جاتی ہے۔ مطالبہ اور مذمت جرمِ ضعیفی کا اظہار ہیں۔ جس خطے میں فلسطینی لہو بہہ رہا ہے وہاں فلسطین اور اسلامی دنیا کے سیاسی مقاصد ہیںاور اسرائیل اور اس کے پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کے سیاسی مقاصد ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل اور اس کے حواری کسی بھی حد تک جانے کے لیے پُر عزم دکھائی دے رہے ہیں اورطاقت بروئے کا ر لا رہے ہیں جبکہ اسلامی دنیا اپنے مطالبات اور مذمتی قراردادوں کے ساتھ جرمِ ضعیفی کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔

مزیدخبریں