فیڈرل بورڈ ریونیو (ایف بی آر) نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے الیکٹرانک سیلز ٹیکس انوائسنگ سسٹم نصب کرنے کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے ٹیئر ون میں شامل بڑے رجسٹرڈ ریٹیلرز و ٹیکس دہندگان کے لیے الیکٹرانک سیلز ٹیکس انوائس سسٹم کی تنصیب کو لازمی قرار دیے جانے کے بعد اب اس کا دائرہ کار دوسرے شعبوں تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ایف بی آر جسے بھی نوٹیفائی کرے گا، اسے یہ الیکٹرانک سیلز ٹیکس انوائسنگ سسٹم نصب کرنا پڑے گا اور ایف بی آر کے سسٹم سے انٹیگریٹڈ رجسٹرڈ نوٹیفائیڈ سپلائرز الیکٹرانک سیلز ٹیکس انوائسنگ سسٹم کے بغیر اشیاءو خدمات کی سپلائی نہیں کر سکیں گے۔ وزارتِ خزانہ، ایف بی آر، سٹیٹ بنک اور وزارت توانائی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف سے سخت مطالبات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزارت توانائی سے بھی نئے مطالبات کیے جا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف جس انداز سے پاکستان سے اپنی ہر کڑی شرط منوا رہا ہے اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ہمارے کرتا دھرتاﺅں نے ملک کو اس کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے لیے جس طرح ڈکٹیشن آئی ایم ایف دے رہا ہے اگر ازخود یہ طریقہ کار اختیار کرلیا جاتا تو ٹیکس کے حوالے سے کئی معاملات درست ہو جاتے اور ٹیکس کے نظام میں بھی بہتری آجاتی۔ المیہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر صرف چھوٹے تاجروں اور پرچون فروشوں کے گرد گھیرا تنگ کیوں کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کو استثنیٰ کیوں دیا جارہا ہے۔ سرکاری افسران بھاری مراعات لینے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے، جو ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ واجب الادا ٹیکس سے کئی گنا کم ہوتا ہے۔ جب تک اشرافیہ اور حکمران طبقات کو شفاف طریقے سے ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا ٹیکس ریونیو کے اہداف کبھی پورے نہیں ہو پائیں گے۔ آئی ایم ایف خود بارہا کہہ چکا ہے کہ سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور مہنگائی کا بوجھ بھی اشرافیہ کی طرف منتقل کیا جائے مگر حکمران طبقات اس کی اس شرط پر کان نہیں دھرتے، مہنگائی کا سارا بوجھ غریب عوام کی طرف ہی منتقل کیے جا رہے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ پہلے ہی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں، ان کے بلوں کی ادائیگی اس کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے، اگر آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان پر مزید بوجھ ڈالا گیا تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس لیے اب غریب طبقہ کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقات کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور آئی ایم ایف کو اتنی کھلی چھوٹ بھی نہ دی جائے کہ پاکستان کا وقار، سالمیت اور اس کی خودمختاری داﺅ پر لگ جائے۔