او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس اور مطالبات

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کو بالآخر یاد آ ہی گیا کہ غاصب صہیونی ریاست نہتے فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم ڈھارہی ہے اس سے متعلق بات چیت کے اجلاس بلانے کی ضرورت ہے۔ ان تنظیموں کے اجلاسوں اور مطالبات سے ناجائز ریاست اسرائیل کی صحت پر کوئی اثر پڑ سکتا تو حالات اس نہج تک پہنچتے ہی نہ۔ اب بھی ان دونوں تنظیموں کے مشترکہ اجلاس میں حصہ لینے والے شرکاءنے جو کچھ کہا ہے ان سے کہیں بہتر ردعمل ان لاکھوں افراد کا ہے جو امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک میں احتجاج کررہے ہیں۔ لندن میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیے گئے مظاہرے میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد شامل تھے لیکن لندن پولیس کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کسی اگر مگر کے بغیر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ادھر، آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہزاروں افراد نے غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ریلی نکالی۔
غزہ میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ الشفاءہسپتال ایندھن ، ادویات اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔الشفاءہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث 39 بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ہسپتال بند ہونے سے سیکڑوں مریضوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل نے الشفاءہسپتال پر فاسفورس بم گرائے، غزہ کے 35 میں سے 21 ہسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے العودہ، القدس اور انڈونیشیا ہسپتال کو بھی گھیر رکھا ہے۔ دوسری جانب، مغربی ممالک کے حکمران لاشیں کھانے والے گدھوں کی طرح غزہ کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک دستاویز منظر عام پر آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی یورپی ممالک نے جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے آپشن پر تبادلہ¿ خیال کیاہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے تعاون سے اسے منظم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی۔ جرمنی کی طرف سے تیار کردہ دستاویز میں تجویز کیا گیا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری ایک بین الاقوامی اتحاد پر عائد کی جائے۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اتحاد سرنگوں کے نظام کو بھی ختم کر دے گا اور غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکے گا۔
اب آئیے او آئی سی اور عرب لیگ کے سعودی دارالحکومت ریاض میں ہونے والے اس مشترکہ اجلاس کی طرف جس میں ایران، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور کویت نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جبکہ ترکی اور انڈونیشیا نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں جانے کی تجویز دی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غزہ کا محاصرہ ختم اور فوجی آپریشن بند کیے جائیں۔ غزہ پر مربوط اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انسانی امداد کی رسائی دی جائے۔ غاصب قوت فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی ذمہ دار ہے۔ غزہ پر جنگ کو مسترد کرتے ہیں۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ ہے کہ وہ ہمیں ختم کر دے گا۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، میرا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل پر بے حد افسردہ ہے۔ اسرائیلی جارح فورسز کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں لایا جائے۔ فلسطینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے زیادہ افسوس عالمی برداری کی بے حسی پر ہے، امریکا سمیت عالمی برادری کو خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا، سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی بربریت رکوانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ غیرمسلح فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں اور غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے کو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مکانی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اسرائیلی افواج فلسطین میں بین الاقوامی و انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی افواج کا مسلسل اور بلاتفریق نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ نگران وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے جنگی جرائم کے لیے اس کا محاسبہ کرے، اسرائیل کے مظالم اور ریاستی دہشت گردی کی اس مہم کو فوری طور پر روکا جائے۔
اجلاس میں عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے اور استدلال کو مسترد کر تے ہوئے فوری جنگ بندی اور امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب اسلامی مشترکہ سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں غزہ کے اندر جاری اسرائیلی جنگ اور بمباری کو فوری روکنے کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا۔ اعلامیے میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، علاقے میں انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اس کانفرنس میں شریک مسلم وعرب دنیا کے سبھی سربراہان نے دوٹوک اور متفقہ انداز میں غزہ پر اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی جنگ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع کا دعویٰ کوئی جواز نہیں رکھتا۔
موجودہ صورتحال میں مذکورہ اجلاس بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا لیکن اعلامیے کی شکل میں اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ مایوس کن تھا۔ مذمتی بیانات سے غاصب صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران اور کچھ نہیں بھی کرسکتے تو انھیں ایسی تمام کمپنیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہیے تھا جو اپنے منافع سے ناجائز اسرائیلی ریاست کو حصہ دے کر نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں، امریکا سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات ہونی چاہیے تھی جو ایک مہینے سے زائد عرصے سے جاری جارحیت میں کھل کر نہ صرف غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کررہے ہیں بلکہ اسے اسلحہ اور گولا بارود بھی مہیا کررہے ہیں۔ جب تک مسلم ممالک کے حکمران ایسے اقدامات کی طرف نہیں آئیں گے غاصب صہیونیوں اور ان ظلم و ستم کی حمایت کرنے والے کے ہاتھ نہیں روکے جاسکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن