پاکستان کی ٹیم عالمی کپ سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکی۔ گوکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا 2003 کے 2007 میں بھی ہم عالمی کپ میں بری طرح ناکام ہوئے 2011 میں ہم نے ورلڈکپ کا سیمی فائنل ضرور کھیلا لیکن ناکام ہوئے پھر دو ہزار پندرہ میں بھی ہماری ہمت سیمی فائنل سے پہلے ہی جواب دے گئی۔ دو ہزار انیس کی خراب کارکردگی کو بھی ہم قسمت سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے، رن ریٹ کا بہانہ بناتے رہے لیکن حقیقت کو تسلیم کرنے کا راستہ نہیں اپنایا۔ بھارت میں کھیلے جانے والے کرکٹ ورلڈکپ میں بھی پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ نہیں بنا سکی۔ اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو پاکستانیوں کے دل ٹوٹے ہیں، شائقین کرکٹ بھلے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں ان کو تکلیف ہوئی، وہ رنجیدہ ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ورلڈکپ بھارت میں کھیلا جا رہا ہو اور پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل میں بھی نہ پہنچ سکے۔ لوگوں کے لیے یہ حیران کن ہو گا، پریشان کن ہو گا، تشویش ناک بھی ہو سکتا ہے لیکن یقین مانیں میرے لیے یہ صورتحال خطرناک ہے۔ کیونکہ لوگ کچھ اور دیکھ رہے ہیں کچھ اور سمجھ رہے ہیں میں کچھ اور دیکھ رہا ہوں کچھ اور سمجھ رہا ہوں۔ جس تیزی سے ہماری کرکٹ تنزلی کی طرف جا رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت جلد ہمارا حال ویسٹ انڈیز جیسا بنگلہ دیش یا سری لنکا جیسا ہو جائے اور یہ کویہ بڑی بات نہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا یہ معمول کی بات ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم بھی ورلدکپ سے باہر ہو جائے گی لیکن یہ ہوا ان آنکھوں نے دیکھا کہ اس مرتبہ بھارت میں کھیلے جانے والے کرکٹ ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی اور یاد رکھیں کہ گذشتہ دس برس کے دوران وہ دو مرتبہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیت چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی ون ڈے کرکٹ کو فرق نہیں پڑا اور نہ ہی ان کی ٹیسٹ کرکٹ بہتر ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتنا آپ کی کرکٹ کے معیار کو بلند نہیں کر سکتا۔ اگر ویسٹ انڈیز باہر ہو سکتا تو پاکستان کیوں نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے جب انگلینڈ کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلا ہے میں تو اس دن سے یہی سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کا حال کب ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش یا سری لنکا جیسا ہو گا۔ پھر یاد رکھیں لوگ سمجھیں گے کہ میں کچھ جذباتی ہو رہا ہوں یا غیر ضروری طور پر زیادہ سخت الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔ یاد رکھیں ہماری کھیلوں کی تاریخ میں قومی کھیل ہاکی اور سکواش کی تباہی کی دو بڑی مثالیں موجود ہیں۔ 80 اور نوے کی دہائی میں کوئی یہ بھی نہیں سوچتا ہو گا کہ ہم ہاکی اور سکواش جیسے کھیلوں میں اپنا مقام کھو دیں گے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان دونوں کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر ہم کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ ان کھیلوں میں بات کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف اچھے دنوں کی یادیں ہی ہیں اور یہ یادیں بھی سوائے تکلیف میں اضافے کے کوئی دوسرا کام نہیں کرتیں کیونکہ اب ماضی کی کامیابیوں سے ہم نہ تو متحرک ہوتے ہیں اور نہ ہی ماضی والا مقام اور وقار حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ اس لیے کرکٹ میں بھی اگر ہم اس جگہ پہنچ گئے تو کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں یہ واحد کھیل ہے جو ہمیں دنیا سے جوڑنے اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ کرکٹ تباہ ہوئی تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ بدقسمتی ہے کہ سب یہ جانتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں وہ بہتری کے لیے کام کرنے کے بجائے ذاتی مفادات و ذاتی مقاصد کو عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ کھیل تباہی کے سفر پر ہے اور اس کھیل سے جڑے لوگوں کو کھیل سے زیادہ اپنی ذات کی فکر ہے۔ اگر نہیں سمجھیں گے تو دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہاکی اور سکواش کو تباہ کیا ہے۔ اب ہم اپنے ہاتھوں سے کرکٹ کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ حقائق، اعداد و شمار، یہ نتائج ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جن کی آنکھیں کھلنے چاہییں انہیں فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کرکٹ تباہ ہو رہی ہے۔ کروڑوں لوگوں کے کو تکلیف پہنچی ہے لیکن جو متعلقہ لوگ ہیں جو فیصلہ کرنے والے ہیں جو اختیار رکھتے ہیں ان کے لیے ترجیح کھیل کی بہتری ہرگز نہیں ہے۔ سب کو عہدوں کی فکر ہے، کسی کو حیثیت کی فکر ہے، کسی کو پیسے سے پیار ہے، کوئی اپنے نام کے زعم میں ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ نام، دام، شہرت، اہمیت صرف اس وقت تک ہے جب تک ٹیم کی بین الاقوامی سطح پر اہمیت ہے اگر قومی کرکٹ ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں سے نکل گئی تو ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کو ملک میں بھی کوئی نہیں پوچھے گا اور اس حوالے سے قومی کھیل کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کاش اس کھیل سے جڑے افراد ذاتی انا سے باہر نکلیں اور ملک کے حکمران بھی مصلحتوں سے آزاد ہو کر فیصلے کریں۔
آخر میں نوشی گیلانی کا کلام
ت±م نے تو کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
م±جھ کو تو یہ بھی کہنے کہ مہلت نہیں ملی
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دِیا جلانے سے فرصت نہیں ملی
ت±جھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور م±جھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی
پھر اختلافِ رائے کی صورت نِکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بےزار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب ک±چھ مِلا س±ک±ون کی دولت نہیں ملی