تحریر: انور خان لودھی
ہماری زمین کے آباد رقبے کی شمالی اور جنوبی حصے میں تقسیم بڑی واضح ہے۔ خط استوا کے اوپر یعنی شمال میں واقع ممالک نچلے حصے یعنی جنوب کے مقابلے میں طاقتور اور خوش حال ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ طاقتور اور غالب ریاستوں کی تہذیب وثقافت بھی کمزور ریستوں کی ثقافت پر چھا جاتی ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے دو صدیاں پہلے نو آبادیاتی نظام کو تشکیل دیا۔ یہ دونوں طاقتور ملک جن ملکوں پر قابض ہوئے وہاں انگریزی اور فرانسیسی کلچر کی گہری چھاپ ہے۔ ہر دور میں تہذیبی اقدار اور سماجی روایات عام رہیں معاشرے ان کے اثرو رسوخ سے متاثر ہوتے رہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کاعروج رہا۔ یونانی، ایرانی، رومی، اسلامی او ر مغربی تہذیبوں نے اپنے اپنے دور عروج میں عالم انسانیت کے ایک خاصے حصے کو متاثر کیا۔ ہر تہذیب اپنے مذہب و ثقافت کی روشنی میں خوبیوں اور خامیوں کے حوالے سے مخصوص خد و خال رکھتی ہے۔ بعض اوقات ایک نکتہ نظر سے کوئی چیز خوبی شمارہوتی ہے لیکن دوسرے اسے خامی گردانتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کبھی کبھار تہذیبوں کا ٹکراﺅ بھی عمل میں آجاتا ہے۔ جس دور میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا عروج تھا تو اس نے عالم انسانیت پر دور رس نتائج مرتب کیے۔ جہاں جہاں تک وہ روشنی پہنچی لوگوں نے دل وجان سے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اپنی آبائی تہذیبوں کو خیر باد کہہ کر اسے اختیار کیا۔ سپین میں ایک عرصہ تک اسلامی تہذیب کے عروج کے بعد وہاں سے مسلمانوں کا دیس نکالا ہوئے بھی عرصہ دراز گزر گیا لیکن ابھی تک وہاں کے لباس اور رہن سہن سے اسلامی تہذیب کے نقوش ملتے ہیں۔ آج کا دور شمال کی تہذیب و ثقافت کے عروج کا دور ہے۔ دنیا بھر کی منڈیوں میں ان کی بنائی ہوئی مصنوعات کو اعتماد اور برتری حاصل ہے۔ کلچر کے اس فرق کو جامعات میں زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ یہ بحث اس لئے بھی ضروری ہے کہ غور و فکر نہ کیا گیا تو شمال کا کلچر جنوب کے کلچر کو ہڑپ کر جائے گا۔ اس موضوع پر امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کے متعدد مصنفین میں سے ایک مصنف کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ڈاکٹر محمد یوسف نوجوان استاد ہیں۔ یونیورسٹی آف گجرات میں میڈیا سٹڈیز پڑھا رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو ستاروں پہ کمند ڈالتے ہوئے چین جا پہنچے اور وہاں کمیونیکیشن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے مختلف ملکی اور غیر ملکی جرائد میں شائع ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں کلچر کے موضوع پہ لکھے گئے ان کے مقالوں کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے نصف درجن مصنفین غیر ملکی ہیں بلکہ سب کا تعلق جنوب سے ہے اور وہ سبھی شمال کی ثقافتی بالا دستی سے متفکر ہیں۔ کتاب شائع ہوئی تو اس کی خبر وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات پروفیسر ڈاکٹر جمشید انور کو بھی ہوئی، اپنے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر محمد یوسف کو اپنے دفتر بلایا، کتاب کے مصنفین میں شامل ہونے پر شادباش دی اور ساتھ ہی تجویز دے دی کہ اس کتاب کی تقریب رونمائی یونیورسٹی آف گجرات کی لائبریری کو کرنی چاہئے۔ تجویز کو جھٹ منظور کیا گیا اور بلا تاخیر قائد اعظم لائبریری جامعہ گجرات کے چیف لائبریرین نے اس کا اہتمام بھی کر ڈالا۔ سات نومبر تقریب کیلئے تاریخ مقرر ہوئی۔ ڈی سٹرکچرنگ کلچر اینڈ کمیونیکیشن ان گلوبل ساو¿تھ کے ٹائٹل سے کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں ابلاغیات کے سینئر اساتذہ اور جید صحافی شامل تھے۔ صدارت ڈین فیکلٹی برائے سوشل سائنسز جامعہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر فیصل محمود مرزا نے کی۔ کتاب کے مرتب و مصنف ڈاکٹر محمد یوسف نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں نئے علم کی فروغ میں جامعات اہم کردار کی حامل ہیں۔ جامعہ گجرات بھی سائنسی و تہذیبی اورسماجی و فکری سطح پر فلاح معاشرہ کا ذریعہ سر انجام دے رہی ہے۔ ڈاکٹر محمد یوسف نے کہا کہ 400صفحات پر مشتمل تحقیقی کتاب کو مرتب و مدون کرتے ہوئے گلوبل نارتھ کے مقابلہ میں گلوبل ساو¿تھ کے تشکیل کردہ علم کی اہمیت کو واضح کرنے کی کاوش کی ہے۔ سنئیر صحافی اور ساو¿تھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے صدر امتیاز عالم نے کہا کہ تنقیدی سوچ اور تحقیقی فکر معیاری علمی تحقیق کی خشت اول ہے۔ بوسیدہ روایات کو توڑنا ہی علم کی نو ساختیت ہے۔ لفظ و معانی کی ہم اہنگی و متضادیت Deconstruction ہے۔ مروجہ نظریات بابت سوالات اٹھاتے ہوئے موجودہ دنیاکو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ابلاغیات کی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ حمید الرحمان نے کہا کہ انسان ارادہ و خلوص نیت کے سہارے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ خود اعتمادی تعمیر شخصیت میں حصہ لیتے ہوئے حصول منزل کی ضامن ہے۔ یونیورسٹیاں سماج کے اہم تہذیبی و تحقیقی ادارے ہیں۔ مثبت خیال و فکر ترقی کی آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر بشریٰ حمید الرحمان نے ڈاکٹر محمد یوسف کی تحقیقی کاوش کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے طلبا اور اساتذہ کے لیے ریفرنس بک قرار دیا۔ شعبہ ابلاغیات یونیورسٹی آف سرگودھا کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر حسن رضا شیرازی نے کہا کہ دورِحاضر میں سوشل میڈیا تبدیلی کا سفیر ہے۔ میڈیاکے ذریعے سماجی حقائق کو تخلیق کرتے ہوئے رائے عامہ کی تشکیل کی جا رہی ہے۔ معیاری تحقیق ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں اصل حقائق کی جانب لے جا سکتا ہے۔ عملی تحقیق میں مقامی رویوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسائل کا بہتر حل ممکن ہے۔ سینئر صحافی احمد ولید نے کہا کہ جدید میڈیا ابلاغیاتی انقلاب کا پیامبر بن چکا ہے۔ پاکستان میں مختلف جہتوں میں تحقیقی تجزیہ کا فقدان ہے۔ دور جدید میں میڈیا ایک باقاعدہ انڈسٹری بن چکا ہے۔ جامعات کا فریضہ طلبا کومستقبل بین بنانا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر نوید اقبال چوہدری نے کہا کہ ہر معاشرہ و تہذیب خاص اقدار و نکاتِ نظر کی امین ہوتی ہے۔ ترقی پذیر معاشرے ابھی تک مغرب کے مرہون منت ہیں۔ مغرب کے تمام علمی رویو ں کا اطلاق مشرقی تہذیبوں پر کرنا درست نہیں۔ سماجی مسائل کا مقامی تجزیہ بہتر نتائج سامنے لا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد یوسف نے کہاکہ دور حاضر میں میڈیا تبدیلی کا مرکز و محور بن چکاہے۔ علم کا فروغ ہمیشہ گلوبل نارتھ میں ہو امگر ساو¿تھ کے مسائل کو وسیع تناظر میں رکھتے ہوئے تحقیقی عمل کے ذریعے مقامی حل ممکن ہے۔ گلوبل ساو¿تھ مختلف النوع مقامی ثقافتوں کے بل بوتہ پر ایک خاص طرز زندگی کا حامل ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر مشاہد انور علم دوست شخصیت ہیں اور جامعہ گجرات میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے اور علم کی ترویج کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی سرپرستی اور معاونت کے بغیر اس تقریب کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔ڈین جامعہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر فیصل محمود مرزا نے کہا کہ ڈاکٹر محمد یوسف نے گلوبل ساو¿تھ کے مختلف ممالک کے سکالروں کے علمی مقالہ جات کو مرتب کرکے ایک اعلیٰ خدمت سر انجام دی ہے۔ میڈیا کو ایک واضح اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ دور حاضر کے مقامی مسائل کے حل کے لئے علمی تحقیق ازحد لازم ہے۔ ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلیکیشنز جانعہ گجرات شیخ عبدالرشید نے اپنے اظہار تشکر میں کہا کہ کتاب کو انسانی تہذیب میں اہم مقام حاصل ہے۔ علمی تحقیق کو سماجی مسائل کے حل سے مربوط کرتے ہوئے بہتر نتائج کا حصول ممکن ہے۔ معاشرہ و تہذیب کو ہمیشہ تخلیقی اقلیت ہی عمل کی راہوں پر لے جاتی ہے۔ تقریبِ رونمائی میں طلبہ کی کثیر تعداد سمیت اساتذہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سینیئر اراکین نے شرکت کی۔ تقریب کا حاصل ایک جملہ تھا کہ یونیورسٹی اساتذہ کو کتاب نویس اور کتاب بینی کا وکیل ہونا چاہیے۔