شاز ملک
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مطالعے کا شوق احساسات کی کھوج اور الفاظ کا اسرار آپکو کتاب کی طرف مائل کرتا ہے تاکہ جہاں علم کی وسعت کا در آپ پر کھل سکے وہیں آگہی کا احساس آپکے ادبی ذوق کی تسکین کرتے ہوئے آپکی روح میں علم کی روشنی بھر سکے ۔۔ پھر آپکے ہاتھ کبھی وہ کتاب لگتی ہے جسکے الفاظ کا اسرار آپکو مسحور کرتا ہے جسے آپ ہر روز سر شام چائےیا کافی پیتے ہوئے ذوق و شوق پڑھتے ہیں اسکی ورق گردانی کرتے ہیں وہ آپکے شوق کے لمس کی عادی ہو جاتی ہے آپکی انگلیوں کی پوروں سے وہ آپکی دلچسپی کو محسوس کر کے اپنے ہر لفظ میں فہم و ادراک کی خوشبو بھر دیتی ہے تاکہ آپ کے وہ پل مہکا دے۔۔قدرت کتاب کے الفاظ کی التجا پر آپکی کھوج اور طلب کو محسوس کر کے آگہی کا در آپ پر کھول دیتی ہے۔اور احساسات کے کئی در آپکے لئے وا کر دیتی ہے یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے۔جب اس کتاب کو بار بار پڑھنے کی لگن آپکے اندر اس کتاب کے الفاظ کی اسراریت کو ختم کرتے ہوئے آپکی تشنہ لبی کا احساس ختم کر دیتی ہے اسے پڑھکر آپکی کھوج ختم ہو جاتی ہے تو پھر آپ یکدم آپ اسے شیلف میں رکھ کر بھول جاتے ہیں کسی اور نئی کتاب کا سحر آپکی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے تو وہ کتاب یونہی پڑی پڑی آپکی عدم دلچسپی سے خود اپنے اندر بے توجہی کی نمی سے سیلن زدہ ہو جاتی ہے اسکے الفاظ صفحات سے مٹنے لگتے ہیں اور پھر اسے دیمک لگ جاتی ہے اور وہ اپنے اندر بوسیدگی کو سمیٹ لیتی ہے۔۔۔اور آخر کار ایکدن بے التفاتی کی گھن کا کیڑہ اسے اندر ہی اندر کھا جاتا ہے اور پھر وہ کسی کا لمس برداشت نہیں کر سکتی اور پھٹ جاتی ہے۔قدرت اسکے الفاظ کو فنا ہوتے دیکھ کر۔آپ سے دانستہ طور پر اس کتاب سے حاصل کیا علم آگہی فہم ادراک چھین لیتی ہے اور آپکے ذہن کا وہ حصہ تاریک کر دیتی ہے جہاں اس کتاب کے الفاظ نے آپکے اندر روشنی بھر دی تھی آپکو یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ آپ علم کی کتنی بڑی عطا سے محروم ہو چکے ہیں۔۔ اسلئے ایک قاری کا کتاب سےرشتہ برقرار رہنا چاہئیے کبھی کبھار پرانی کتابوں کی ورق گردانی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئیے تاکہ آپکی لائبریری کی زینت بننے والی ہر کتاب آپکے شوق کی نگاہوں اور ذوق کی انگلیوں کی پوروں کے لمس سے آشنا رہے اور کبھی بوسیدہ نہ ہو۔
میری سوچ کے لئے بھی یکدم یہاں ایک نیا در وا ہوتا ہے اور قدرت مجھے الفاظ عطا کرتے ہوئے ذہن کو تھوڑی اور وسعت عطا کرتی ہے اور میرا احساس مجھے یہ باور کروا رہا ہے کہ یہی تجزیہ انسانوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے میرے مشاہدے میں مجاہدہ بھی شامل ہے اسلئیے کبھی کبھی وہ کچھ بھی قدرت عیاں کرتی ہے جو میں نہیں سوچتی اور پھر میرے قلم کو الفاظ عطا ہو جاتے ہیں سو میرا یہ ماننا ہے کہ کبھی چلتے چلتے ہماری نگاہوں کے دائرے اور سوچ کے ریڈار میں ایسا انسان آ جاتا ہے جو ہمیں اپنا ہم نفس لگتا ہے یہ بھی ایک پراسرار کتاب جیسا ہے سو ہم دیوانہ وار اس کی کھوج میں نکلتے ہیں اور اپنے شوق کی حد سے نکل کر آخر کار اس سے رابطہ بڑھانے اور بات کرنے کو اس سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں وہ انسان آپکو پر اسرار بھی اور اسرار سے بھرا لگتا ہے اور آپ اسے ایک قیمتی کتاب کی طرح پڑھنا چاہتے ہیں اور پھر باتوں کی سڑک پر لگی ہری بتی روشن ہو جاتی ہے اور گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا ہے یہاں تک کہ آپ اس انسان سے اتنی گفتگو کرتے ہیں اور اسے جان لیتے ہیں پھر یکدم آپکے اندر اسکا اسرار اسکی ہراسراریت ختم ہو جاتی ہے آپکی لگن کھوج کا رنگ مدہم پڑنے لگتا ہے پھر باتوں کا گفتگو کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے رکنے لگتا ہے اور ہھر گھٹتے کھٹتے ختم ہو جاتا ہے۔۔ اس اثنا میں کسی اور کااسرار آپکی توجہ اپنی طرف کھنچ لیتا ہے اور اپ کسی اور دنیا کو فتح کرنے نکل جاتے ہیں۔۔۔ اور پھر میسجز کی ہر سبز بتی گل ہو کر ہمیشہ کے لئے سیاہ ہو جاتی ہے ،۔۔۔یاد رکھئیے تعلق کا دیا تب تک ہی روشنی دیتا ہے جبتک اس میں توجہ کا تیل ڈالا جائے ورنہ وہ بجھ کر جلتے دھویں سے آپکی آنکھوں کو کڑواہٹ سے بھر دیتا ہے۔۔۔
مہ کامل سے شب تاریک کا سفر کسی کے لئے شوق کا یہ سفر اور کسی کے لئے۔ زندگی سے موت تک کا سفر
یہ خود فریبی اور دھوکے کا سفر ہے۔۔ کسی کا گم گشتہ راہ سے بھٹکانے یا بھٹکنے کا سفر یہ سلسلے یہ تعلقات آج کے دجالی دور کا وہ فریب ہیں جن کا ذائقہ ہر ایک نے چکھا ہے موت کی طرح۔۔کیا آپ نے بھی۔موت سے پہلے موت کا ذائقہ چکھا ہے۔۔۔۔۔اگر چکھا ہے تو یقینا آپکی زندگی میں دل کے کسی کونے میں پچھتاوے کی بوسیدہ الماری ضرور ہو گی جسے آپ کبھی کھبار کھولیں تو دھوکے کی بدبو آپکا دماغ بھک سے اڑا دے گی اور آپ خود فریبی کا پچھتاوا برداشت ہی نہیں کر پائیں اور آخر کار اسے کبھی نہ کھولنے کا عہد کرتے ہوئے زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔۔
مگر یاد رہے کہ قدرت کو آپکا یہ عمل اتنا ناگوار گزرتا ہے کہ وہ آپکے اس عمل کو مکافات کی تکڑی میں تول کر آپکی نسلوں پر فریب اور ذلت مسلط کر دیتی ہے۔جو کسی نہ کسی صورت آپکو یہ احساس دلانے کے لئے کہ کسی کا اسرار کے پیچھے بلا جواز بھاگنا خود آپکے لئیے بہت نقصان دہ ہے کہ اس گناہ کا پلڑا آپکے عمل کا ترازو ٹوڑ سکتا ہے۔۔اور ہھر کسی کی آہ آپکی راہیں مشکل بنا سکتی ہے۔۔۔۔۔
اور اگر آپ کی ذات کا اسرار قائم ہے تو اسے قائم
رکھنے کا عہد کریں تاکہ آپکے دل کی کتاب کوئی پڑھ نہ سکے یہ اختیار کسی کو مت دیجئے گا۔۔۔ یاد رہے دھوکہ غرض فریب حسین الفاظ کے گلوں سے ڈھکا ہوتا ہے مگر انکے اندر خار ہی خار بھرے ہوتے ہیں جو دل سے ہوتے ہوئے آپکی روح کو زخمی کریں گے ہوسکے تو کربِ نارسائی کے اس درد سے بچتے ہوئے انکی چبھن سے خود کو محفوظ رکھئیے
خدا ہم سب کو دجالی دور کے فریب سے بچا کر رکھے ہماری ذات میں بھرے اسرار کو سلامت رکھے آور زندگی کے شیلف میں رکھی ہمارے نایاب دل کی کتاب کو کہنہ بوسیدہ اور دیمک لگنے سے سدا محفوظ رکھے آمین ثمہ آمین
آگہی کا لمس
Nov 13, 2023