کوئٹہ دہشت گردی، دلخراش سانحہ

امر اجالا …اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
یوم اقبال کی دوپہر کوئٹہ میں بدترین دہشتگردی ہوئی جس میں 26افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 62کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں کئی کی حالت تشویشناک ہے جبکہ دہشتگردی کے اس ہولناک واقعے کی ذمہ داری ''بی ایل اے'' نے قبول کی ہے۔کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے نے) نے دعویٰ کیا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر ان کے خودکش بمبار نے فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے جب کہ دھماکے میں 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ ہفتے کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر دو پر اس وقت دھماکہ ہوا جب مسافروں کی بڑی تعداد ٹرین کی آمد کی منتظر تھی۔اس ضمن میں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ 8نومبر کو کوئٹہ میں صوبائی حکام کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے بی ایل اے چھوڑ کر ہتھیار ڈالنے والے سابق کمانڈر طلعت عزیز نے انکشاف کیا کہ بی ایل اے کے دہشت گرد قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ طلعت عزیز کا کہنا تھا کہ کالعدم بی ایل اے دہشت گرد کارروائیوں میں بھی ملوث ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے تھرڈ سمسٹر کا طالب علم تھا لیکن مجھے گمراہ کیا گیا۔ اس ضمن میں موصوف نے اپنے اقبالی بیان میں بہت سی دیگر تفصیلات کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹھیک ایک برس قبل شہداءکے ورثاءنے فوجی عدالتیں بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہداءہماری عزت، عظمت اور ہماری آن و شان ہیں اور فوجی عدالتوں کو کام جاری رکھنے دیا جائے کیوں کہ اس سے شہداءکے ورثاءکو فوری انصاف ملے گا۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ اس وقت ملک کے غیرمعمولی حالات ہیں اور ایسے حالات غیرمعمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ اسی حوالے سے یہ امر بھی اہم ہے کہ فوجی عدالتوں آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کو غیرفعال کرنے سے ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے جو کہ ہرگز قابل قبول نہیں ہونی چاہیے۔کسے معلوم نہیں کہ ہماراملک موجودہ حالات میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں اور جاسوسو ں کے مقدمات کو سول عدالتوں میں طویل مدت تک لٹکانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مبصرین کے مطابق یہ ایکٹ 1952ئسے بہترین کام کر رہا تھالہٰذ ا ملک و قوم کی سلامتی کیلئے اسے دوبارہ بحال کیاجاناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہدا ئپاکستان کا خون راہیگاں نہیں جانا چاہیے لہٰذا ملکی سلامتی کو کسی طور پر داو¿ پر نہ لگایا جائے اور شہدائکے قاتلوں کو بہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔کیوں کہ کسے معلوم نہیں کہ ہمارے شہداءنے ملکی دفاع و سلامتی کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں اور یہ ہمارے ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں۔اسی تناظر میں مبصرین کی رائے ہے کہ جان کی قربانی سے بڑی کوئی دوسری قربانی نہیں ہوتی اور اس ضمن میں ہمارے شہداﺅطن عزیز کی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لہذا ملک دشمن عناصر کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ اپنے وقتی مفادات کی خاطر ہمارے خون کے ساتھ کھیلے۔اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ تنقید بنانا دانشوری،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قومی اہمیت کے ہر موقع پر ایک گروہ نے پاکستان دشمنی کو اپنا ایجنڈا بنا لیا ہے تبھی تو 14اگست 2014کو ایک سیاسی جماعت نے دھرنے کا آغاز کیا تھا جبکہ ایک ماہ قبل ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر دھرنا دیا گیا اور اب اقبال ڈے کے موقع پر صوابی میں بھی دھرنا دیا گیا۔دوسری جانب کوئٹہ میں دہشت گردی کا دلخراش سانحہ پیش آیا ایسے میں ہونی والی یہ تمام دہشت گردی ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تو اور کیا ہے۔تو قع کی جانی چاہیے کہ تما م تر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جانب سنجیدہ توجہ دی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن